اللہ پاک نے حضور ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا
ہے۔جب آپ ﷺ دنیا میں آئے تو عورتوں، بچوں ، مردوں،غریبوں، یتیموں کو ان کے حق ملے۔
اسلام سے قبل بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا،جب آپ کی آمد ہوئی تو بچیوں پر
شفقت ہونے لگی۔آپ بچوں سے بہت پیار کرتے اور اُن کو چومتے تھے۔ آپ جب کوئی چیز
کھاتے تو پہلے بچوں کو دیتے اور پھر خود کھاتے تھے۔ آپ جب سواری پر بیٹھتے تو آگے
بچوں کو بٹھاتے تھے۔آپ جب راستے سے گزرتے تو بچوں کو سلام کرتے ،ان کے سر پر دست ِشفقت
پھیرتے اور ان سے حُسنِ سلوک کرتے تھے۔
اللہ پاک کا فرمان ہے :وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ
اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ- (پ8،الانعام: 151)ترجمہ: اور
اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے۔
آپ ﷺ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے تھے۔ ایک روز آپ حضرت حسن
بن علی رضی اللہ عنہ کو چوم رہے تھے۔اقرع بن حابس تمیمی آپ کے پاس بیٹھے تھے دیکھ
کر کہنے لگے:میرے دس لڑکے ہیں میں نے ان میں سے کسی کو نہیں چوما ۔توآپ نے فرمایا :جو
رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
(بخاری، 4/100 ،
حدیث: 5997)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ فصل کا کوئی پھل
پکتا تو لوگ اسے رسول الله ﷺ کی خدمت میں لایا کرتے، آپ اس پر یہ دعا پڑھا کرتے:
خدایا! ہمیں اپنے مدینے،اپنے پھل،اپنے مُد اور اپنے صاع میں برکت دے۔اس دعا کے بعد
جو بچے حاضرِ خدمت ہوا کرتے ان میں سے سب سے چھوٹے کو وہ پھل عنایت فرماتے۔(مسلم،
ص 813، حدیث:1373)
حضرت عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے
کہ جب رسول الله ﷺ کسی سفر سے تشریف لاتے تو آپ ﷺ کے اہل بیت کے بچے خدمت شریف میں
لائے جاتے۔ایک دفعہ آپ ﷺ کسی سفر سے تشریف لائے تو پہلے مجھے خدمت شریف میں لے گئے۔
آپ ﷺ نے مجھے اپنے آگے سوار کر لیا ،پھر حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ کے دو لڑکوں
میں سے ایک لائے گئے ، آپ نے ان کو اپنے پیچھے سوار کر لیا، اس طرح تینوں ایک سواری پر داخل مدینہ ہوئے۔(مسلم،
ص1014، حدیث:6268)