نبیِ کریم،نورِ مجسم ﷺ کو اللہ پاک نے تمام جہانوں کے لئے
رحمت بنا کر بھیجا۔اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً
لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ17، الانبیاء: 107)ترجمہ کنزالعرفان:
اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔
تفسیر
صراط الجنان
حضورِ اقدس ﷺ کی رحمت:
تاجدارِ رسالت ﷺنبیوں، رسولوں اور فرشتوں علیہم السلام کے لئے رحمت ہیں ، دین
و دنیا میں رحمت ہیں ، جِنّات اور
انسانوں کے لئے رحمت ہیں ،مومن و کافر کے
لئے رحمت ہیں ،حیوانات،نباتات اور جمادات کے لئے رحمت ہیں۔ الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں سیّدُ المرسَلین ﷺ ان سب
کے لئے رحمت ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں:حضورِ
اقدس ﷺ کا رحمت ہونا عام ہے،ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ
لایا ۔مومن کے لئے تو آپ ﷺ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے آپ دنیامیں رحمت ہیں کہ آپ کی بدولت اس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اس سے زمین
میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا
عذاب اٹھا دیا گیا۔(تفسیر خازن،3/297)
اسی طرح آپ بچوں پر بے حد رحمت و شفقت فرماتے تھے ۔آپ بچوں سے بھی بے حد پیار کرتے تھے۔ آیئے!
اس کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے۔چنانچہ
آپ ﷺ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے تھے۔ ایک روز آپ حضرت حسن
بن علی رضی اللہ عنہما کو چوم رہے تھے،اقرع بن حابس تمیمی آپ کے پاس بیٹھے تھے، دیکھ
کر کہنے لگے کہ میرے دس لڑکے ہیں ، میں نے ان میں سے کسی کو نہیں چوما۔آپ نے فرمایا:جو
رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔(بخاری،4/100، حديث :5997)
حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے
پیچھے نماز ظہر پڑھی،نماز سے فارغ ہو کر آپ دولت خانہ کو تشریف لے گئے ، میں آپ کے
ساتھ ہولیا، راستے میں بچے ملے ، آپ نے ہر ایک کے رخساروں پر دستِ شفقت پھیرا اور
میرے رخساروں پر بھی پھیرا، میں نے آپ کے دستِ مبارک کی ٹھنڈک یا خوشبو ایسی پائی
کہ گویا آپ نے اپنا ہاتھ مبارک عطار کے صندوقچہ میں سے نکالا تھا۔
(مسلم، ص1271 ،حديث : 2329)
آپ کا گزر بچوں پر ہوتا تو ان کو سلام کیا کرتے تھے۔(بخاری،4/170،حديث:6247)
حضرت عبد الله بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے
کہ جب رسول الله ﷺ کسی سفر سے تشریف لاتے تو آپ کے اہلِ بیت کے بچے خدمت شریف میں
لائے جاتے۔ ایک دفعہ آپ کسی سفر سے تشریف لائے تو پہلے مجھے خدمت شریف میں لے گئے،
آپ نے مجھے اپنے آگے سوار کر لیا، پھر حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے دولڑکوں میں
سے ایک لائے گئے،آپ نے ان کو اپنے پیچھے سوار کر لیا،اس طرح تینوں ایک سواری پر
داخل مدینہ ہوئے۔ (مسلم ،2/41 ،حديث: 3900)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ فصل کا کوئی پھل
پکتا تو لوگ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا کرتے ،آپ اس پر یہ دعا پڑھا کرتے
:خدایا! ہمیں اپنے مدینے،اپنے پھل،اپنے مُد اور اپنے صاع میں برکت دے۔ اس دعا کے بعد بچے جو حاضر خدمت
ہوا کرتے ان میں سے سب سے چھوٹے کو وہ پھل عنایت فرماتے۔(مسلم،ص713،حديث:1373)
سبحان اللہ!میرے نبی کی شان ہی نرالی ہے۔بچوں سے کس قدر پیار کرتے تھے کہ نیا پھل آتا تو بچوں کو دے دیا کرتے،سواری
پر اپنے ساتھ بٹھا لیتے اور شفقت و محبت سے بچوں کو چوم لیتے۔ان احادیثِ طیبہ کو
وہ لوگ پیشِ نظر رکھیں جو بچوں پر ظلم و
زیادتیاں کرتے ہیں اور ان کو جابجا ڈانٹتے ہیں۔اللہ پاک ہمیں بڑوں کا ادب و احترام
اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔کسی شاعر کا قول ہے:اس ذات ِاقدس کی
مہربانی اور سختی دونوں سراپا رحمت ہیں۔مہر بانی دوستوں کے لئے اور سختی دشمنوں کے
لیے رحمت ہے۔وہ ذاتِ اقدس جس نے دشمنوں پر رحمت کے دروازے کھولے دئیے تھےاور فتحِ
مکہ پر لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَکا اعلان فرما دیا۔