بچے اللہ پاک کی نعمت ہوتے ہیں۔بچے اپنے ہو یا دوسروں کے، بچے بچے ہی ہوتے ہیں۔لہٰذا ان سے ہمیشہ پیار و محبت سے پیش آنا چاہیے۔ بعض لوگ ایسے سخت مزاج ہوتے ہیں کہ اپنے بچوں پر بھی شفقت نہیں کرتے لہٰذا ان کو اس حدیث سے ڈر جانا چاہیے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو چوما تو ایک شخص نے عرض کی:میرے دس بچے ہیں۔میں نے ان میں سے کسی کو نہیں چوما تو آقاﷺ نے انہیں دیکھا،پھر ارشاد فرمایا:جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔(بخاری، 4/100 ، حدیث: 5997)

بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بچوں پر بڑے شقیق و مہربان ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے بچوں پر شفقت نہیں کرتے ۔حالانکہ حضور اکرم ﷺ کی شفقت و محبت صرف اپنے بچوں کے ساتھ خاص نہیں تھی بلکہ آپ ﷺ دیگر مسلمانوں کے بچوں سے بھی شفقت فرماتے تھے۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے : حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ کو تحفے میں ایک برتن میں حلوا پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے ہم سب کو تھوڑا تھوڑا حلوا دیا، جب میری باری آئی اور مجھے ایک بار دینے کے بعد فرمایا:کیا تمہیں اور دوں ؟میں نے عرض کی:جی ہاں ! تو آپ ﷺ نے میری کم عمری کی وجہ سے مجھے مزید دیا ، اس کے بعد جو لوگ باقی رہ گئے تھے ، اُن کو اُن کا حصہ دے دیا گیا ۔(شعب الایمان،5/ 99 ، حدیث: 5935)

سبحن اللہ!آقا کریم ﷺ نے کمسن صحابی کو دیگر صحابہ سے زیادہ حلوا دے کر کس طرح ان کو خوش کیا!لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی بچوں کو خوش کریں۔

سرکارِ مدینہﷺ کی بچوں سے شفقت کے مزید انداز احادیثِ مبارکہ میں موجود ہیں۔چنانچہ آپﷺ کی بچوں سے شفقت کا عالم یہ بھی تھا کہ دورانِ نماز سجدے کی حالت میں پُشتِ اطہر پر بچوں کی موجودگی محسوس فرما کر سجدہ طویل فرما دیتے ۔ (مسند احمد،5/ 426، حدیث: 2033 ملخصاًومفہوما)بعض دفعہ تو دورانِ نماز بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپ ﷺ نماز میں تخفیف فرما دیتے۔(بخاری،1/ 253 ، حدیث: 707 مفہوماً)

بچوں سے شفقت و مہربانی کا ایسا برتاؤ دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبیﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ بچوں سے شفقت فرمانے والے تھے۔(مسند ابویعلی ،3/ 425 ،حدیث :4181)