پیارے پیارے اسلامی بھائیوں حضرت یسع علیہ السّلام کی شخصیت انتہائی پرکشش، پر وقار اور بارعب تھی۔  آپ علیہ السّلام اعلی لباس زیب تن فرماتے تھے ہاتھ میں عصا عموماً ہوتا تھا طبیعت میں سادگی اور بے نیازی تھی۔ آپ علیہ اسلام کا ذریعہ معاش کھیتی باری تھا۔ دن بھر کھیتوں میں ہل چلانے اور راتوں کو اللہ عزوجل کی عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ آپ علیہ اسلام کو اللہ عزوجل نے نبوت عطا فرمائی۔ اور اللّہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو بادشاہت بھی عطا فرمائی آپ علیہ السّلام دن میں روزے رکھا کرتے اور رات کو اللّہ عزوجل کے حضور کھڑے ہو کر نوافل ادا کیا کرتے تھے آپ علیہ السّلام کو کسی بات پر غصّہ نہیں آتا تھا خصوصاً آپ علیہ السّلام اپنی امت کے معاملات میں بڑی متانت سے فیصلہ کیا کرتے تھے کسی قسم کی جلد بازی نہ کرتے_ آپ علیہ السّلام حضرت ابرہیم علیہ السّلام کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ علیہ السّلام حضرت الیاس علیہ السّلام کے بعد مبعوث ہوئے اور ایک عرصے تک لوگوں کو تبلیغ حق کرتے رہے۔ نیز آپ علیہ السّلام نے کفار کو دین اسلام کی طرف لانے کا فریضہ بھی سر انجام دیا اللّہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو نبوت بھی عطا فرمائی چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ھے وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86) :-ترجمہ کنزالایمان اور اسمعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت عطا فرمائی

اس آیت مبارکہ میں اللّہ پاک نے ان انبیاء کرام علیہم السّلام کا ذکر فرمایا کہ جن کے نہ پیر و کار باقی رہے نہ ان کی شریعت جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت یسع ، حضرت یونس اور حضرت لوط علیہ السّلام ایک اور جگہ اللّہ پاک قرآن پاک ارشاد فرماتا ھے سورۃ ص آیت نمبر 48 پارہ نمبر 23 وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ(48) -:ترجمہ کنزالایمان اور یاد کرو اسمعیل اور یسع اور ذوالکفل کو اور سب اچھے ہیں

تفسیر صراط الجنان یعنی اے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ ! آپ حضرت اسماعیل ، حضرت یسع اور حضرت ذوالکفل علیہ السّلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کو تسلی حاصل ہو اور ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں اور وہ سب بہترین لوگ ہیں۔

یادر ہے کہ حضرت یسع علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیاءکرام میں سے ہیں اُنہیں حضرت الیاس علیہ السلام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں انہیں نبوت سے سرفراز کیا گیا

وفات سے پہلے کا وقت۔۔ آپ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو بنی اسرائیل کے کچھ بڑے آدمی مل کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ اب کسی کو اپنا جانشین مقرر کر دیں تاکہ ہم اپنے معاملات میں اس کی طرف رجوع کریں تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔ ملک کی باگ دوڑ میں اس کے حوالے کروں گا جو مجھے تین باتوں کی ضمانت دینے پر تیار ہوگا۔ کسی شخص نے بھی اس بات کی ضمانت قبول نہ کی سوائے ایک نوجوان کے اس نوجوان نے کہا میں ضمانت دیتا ہوں آپ علیہ السلام نے اس کو کہا بیٹھ جاؤں۔ مقصد یہ تھا کہ کوئی اور شخص بات کرے۔ لیکن پھر سے وہی نوجوان کھڑا ہوا اور کہا کہ میں زمہ داری قبول کرنے کی ضمانت دیتا ہوں۔ آپ علیہ السلام نے کہا ٹھیک ہے تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کروں.

(1) پہلی یہ کہ تم تمام راتیں عبادت میں بسر کروں گے یاد رہے سونا نہیں۔

(2) دوسری بات یہ کہ ھر دن روزہ رکھنا ھے۔

(3) تیسری یہ کہ غصے کی حالت میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا۔

اس نوجوان نے تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کرلی تو آپ نے بادشاہی کا نظام اس کے سپرد کر دیا اور اپنا جانشین قرار دیا (روح المعانی، الانبیاء، تحت الآیہ 9/85 /108 الجزء السابع عشر)

خیال رہے کہ نبوت میں خلیفہ نہیں بنایا جاسکتا، اللہ تعالیٰ جسے چاہے نبی بنا دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے -:ترجمہ کنزالایمان اللہ خوب جانتا ہے جسے چاہے رسالت کے منصب سے نواز دے۔

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں عرض ہے رب کریم ہمیں انبیاء کرام کا فیضان نصیب فرمائے اور ان کی سیرت طیبہ پر عمل کی توفیق مرحمت فرمائے آمین