حمزہ بنارس (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
کسی بھی
معاشرہ میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کیلئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا
ضروری ہے ، شہری زندگی ہو یادیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ
سکتا، اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن وامان اس وقت تک قائم نہیں کر سکتا جب تک
کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو ۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ کسی
بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی
اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجب حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے
(1)حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی اور جس نے میری
نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی ، اور جس نے امیر و حاکم کی اطاعت کی
اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر و حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی
کی۔ (حوالہ صحیح بخاری حدیث نمبر 7137)
حاکموں کے
ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان کی اطاعت کرنا ہمارا اہم فریضہ ہے ورنہ معاشرہ بدامنی
کا شکار ہو جائے گا پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی فریضے کی ادائیگی
کا حکم دیا ہے چنانچہ
2)مکی مدنی
مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان
سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور
تم انکے لئے دعا کرتے ہو ، اور تمہارے حاکموں میں سے میرے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے
بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم
پر لعنت بھیجتے ہیں ، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم ایسے
حاکموں کو تلوار لیکر انکے خلاف علم بغاوت نہ بلند کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا : نہیں ، جب تک وہ تمہارے در میان نماز قائم کرتے رہیں ان کے خلاف
بغاوت نہ کرنا اور جب تم اپنے حاکموں سے کوئی ایسی شے دیکھو جسے تم نا پسند کرتے
ہو تو ان کے عمل کو برا سمجھ مگر انکی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ [ حوالہ صحیح
مسلم: حدیث نمبر1855]
حاکم کے ساتھ
تعاون کرنا ہر فرد پر لازم ہے کیونکہ حاکم کے ساتھ تعاون کے بغیر ملک میں کبھی بھی
امن وامان قائم نہیں کیا جا سکتا حاکم ہمیشہ اپنی رعایا کو خوش دیکھنا چاہتا ہے
حاکم قوم اور ملک کی فلاح وبہبود کے لیے دن رات محنت کرتا ہے لیکن آج کے دور کا
المیہ لوگ حاکم کی پیروی کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں حالانکہ اسلام ان کی اطاعت
کا حکم دیتا ہے
3) حضرت علقمہ
بن وائل بن حجر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے سوال کیا کہ اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جو ہمارا حق نہ دیں،
لیکن اپنا حق مانگیں (تو ہمارے لیے کیا حکم ۔ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : ” تم ان کی بات سننا اور ماننا، ان کے ذمے وہ بوجھ ہے جو انہیں
اٹھوایاگیا(یعنی عدل وانصاف۔ (حوالہ ترمذی حدیث نمبر: 2220)
ہمیں چاہیے کہ
ہم اپنے حاکم کی اطاعت کریں تاکہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے ہر فرد اطاعت
کو اولین ترجیح دے تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائےلیکن ہمیں ان حکمرانوں کی اطاعت
سے منع کیا گیا جو شریعت کی پاسداری نہیں کرتے
(4)سیدنا ابو
سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا، اس کا
ایک اقتباس یہ ہے ” آگاہ رہو ! قریب ہے کہ مجھے بلا لیا جائے اور میں اس بلاوے کا
جواب دے دوں ۔ میرے بعد مختلف حکمران تمہاری ذمہ داری اٹھائیں گے، وہ جو کچھ کہیں
گے اس پر عمل بھی کریں گے، ان کی اطاعت حقیقت میں اطاعت ہے۔ تم لوگ کچھ زمانہ اسی
طرح رہو گے ۔ پھر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں گے، جو اپنے کہے پر عمل نہیں کریں گے
اور اگر عمل کریں گے تو اسے پہچانتے نہیں ہوں گے۔ جن لوگوں نے ان کی ہمدردی کی، ان
کے مشیر مصاحب بنے اور ان کی پشت پناہی کی تو وہ خود بھی ہلاک ہوں گے اور دوسروں
کو بھی ہلاک کریں گے۔ (حوالہ المعجم الاوسط، حدیث نمبر 6984)
آ ج کل دنیا
میں اکثر مسلمان حکمران شریعت کی اطاعت نہیں کر رہے جس کی وجہ سے مسلمان ذلت
ورسوائی کا سامنا کر رہے ہیں اللّٰہ پاک ہمیں نیک حکمران عطا فرمائے ۔ اللّٰہ پاک
ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔