کسی بھی معاشرہ میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کیلئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے ۔شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیںرہ سکتا ۔ ا ور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن وامان اس وقت تک قائم نہیں کر سکتا جب تک اسے رعایاکا تعاون حاصل ننہ ہو اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم ومحکوم اپنے فرائض و واجبات اور حقوق کوپہچا نہیں

رعایا پر سختی نہ کرنا : مسلمانوں کا جو حاکم ان پر بلا وجو سختی کرے تو اللہ کے جانب سے اس پر سختی کی جاتی ہے۔ حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایا پر سخت نہ کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو اپنے کچھ کاموں کے لیے ولی و نگران بنا کر بھیجتے تو اس سے فرماتے خوشخبری دو متنفر نہ کرو اور آسانی کرو ۔(مسلم، کتاب الجھا دو اسیر، باب فی الامر با تیسیر و ترک 1 تنفیر ص 739 ، حدیث : 4525)

رعایا کی خبر گیری : جو حکمران اپنے عیش ممیں مگن ہوں. اور رعایا کی حاجات وضورت کی پروانہ کریں تو بروز قیامت ایسے حکمرانوں کی پکڑ ہوگی ۔ حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایا کی خبر گیری ان کی حاجات کوپورا کرے چنانچہ حضرت سیدنا ابو مریم آزدی نےامیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ میں نے رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جسے اللہ مسلمانوں کے کسی معاملہ کا والی و حاکم بنائے پھر وہ ان کی حاجات وضرورت اور محتاجی سے چھپتا پھر ے تو بروز قیامت اللہ کو اس کی ضرورت و حاجت اور محتاجی وفقر سے کچھ سروکار نہ ہوگا۔ (ابوداؤد اور کتاب الخراج --- الخ ، باب فيما يلزم الامام من امر الرعية - - الخ ، 3 / 188 ، حدیث 2948 بتغیر)

رعایا کو دھوکا نہ دینا ، حکمرانی بہت بڑی آزمائش ہے اگر حکمرانی کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے تو یہ وبال جان ہے۔ حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایا کو دھوکا نہ دے چنانچہ سیدنا ابو یعلی معقل بن یسار سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا. جب الله اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو. تو الله اس پرجنت حرام فرما دے گا۔ ( بخاری ، کتاب الاحکام ، باب من استرعى رعية فلم ينصح ، 7150 :456/4، حدیث)

عدم بغاوت اور انکے لیے دعا: اگر اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سےبغاوت جائز نہیں۔ حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایا سے اخلاق سے پیش آئے ان کے لئے سلامتی کی دعا مانگے حضرت سید ناعوف بن مالک فرماتے ہیں میں نے حضور صلی الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا. ۔ تمہارے اچھے حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں تم ان کے لئے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تمہارے برے حکمران وہ ہیں جن سے تم بعض رکھتے ہو اور وہ تم سے بعض رکھتے ہیں تم ان پر لعنت بھجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھجتے ہیں ۔حضرت سیدنا عوف بن مالک کہتے ہیں ہم نے عرض کی یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کیا ہم ان سے علیحدہ نہ ہوجائیں ؟اپ نے ف رخ مایا ۔ نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کریں ۔نہیں جب تک وہ تم میں نمازقائم کریں۔ ( مسلم ، کتاب الامارة ، باب خيار الائمة وشرارهم ص795 ، حدیث : 4805 )

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں امیر کو چاہیے کہ اپنی رعایا کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرے مسلمان پر اپنے مسلمان حکمران کی بات سننا اور ماننافرض ہے۔ حاکم اپنی رعایاکے ساتھ حسن اخلاق سےپیش آئے ان کے درمیان انصاف قائم کرے ۔ اپنی رعایا کی اصلاح کی کوشش کرے

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔