معاشرے میں زندگی کے معاملات کو احسن طریقے سے چلانے کے لئے حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہوتا ہے جو اپنے فہم و فراست اور سمجھ بوجھ سے ایک عادلانہ نظام قائم کر سکے اور معاشرے میں امن و امان سلامت رہے لہذا جس طرح حاکم کی ذمہ داریاں و فرائض ہوتے ہیں اسی طرح رعایا پر حاکم کے حقوق ہوتے ہیں جن کو ادا کرنا واجب ہے ۔ حاکم کے چار حقوق ہیں۔

1 حاکم کی بات ماننا: جو شخص حاکم بن گیا ہو تو اب اسکے ماتحتوں پر لازم ہے کہ اسکی بات سنیں اور اس پر عمل بجا لائیں جب تک کہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشادفرماتاہے: "یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ" ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں ۔ (پارہ 4,سورۃ النساء59)

بخاری شریف میں ہے کہ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری، کتاب الجہادوالسیر، باب یقاتل من وراءالامام ویتقی بہ،2 /297، الحدیث: 2957)

اس حدیث پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ یہاں امیر کی اطاعت سے مراد جائز احکام میں اسکی اطاعت کرنا ہے. (مراۃ المناجیح,جلد5,کتاب الامارۃ والقضاء,ص359,حدیث3491,حسن پبلیشرز, اردوبازارلاہور)

2 خیر خواہی اورنصیحت: انکےساتھ خیر خواہی کا معاملہ کریں اگر انکے کسی فعل میں کوئی خامی نظر آئے تو ان کو احسن طریقے سے آگاہ کریں اور انکو درست مشورہ دیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پرکچھ حکام ہوں گے جن کے کچھ کام تم پسند کروگے کچھ ناپسند کروگے تو جو انکار کرے تو وہ بری ہوگیا اور جو ناپسند کرے وہ سلامت رہا" (مراۃ المناجیح, جلد5,کتاب الامارۃ والقضاء,ص364,حدیث3501,حسن پبلیشرز, اردوبازارلاہور) یعنی ایسےبادشاہوں کےبرے اعمال کو زبان سےبراکہہ دینےوالاپختہ مسلمان ہےاوران کےاعمال کوصرف دل سے برا سمجھنے والا زبان سے خاموش رہنے والا پہلے کی طرح پختہ تو نہ ہوگا مگر گناہ سے بچ جائےگا۔

3 تعاون کرنا: انکے جو حقوق ہیں انکی ادائیگی کرکے انکے ساتھ تعاون کریں حاکم کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے بچیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو اوراطاعت کرو اگرچہ حبشی غلام حاکم بنادیاجائے جس کاسرکشمش کی طرح ہو. (مراۃ المناجیح, جلد5,ص360,حدیث3493,حسن پبلیشرز, اردوبازارلاہور)

مسلمانوں پر لازم ہے کہ انکے حقوق کی ادائیگی کاخیال رکھیں جب تک حاکم اللہ کی نافرمانی کاحکم نہ دےبہت سی احادیث میں حاکم کی اطاعت کرنےکی تاکیدآئی ہےاسی طرح مشکوۃ شریف کی ایک اور روایت پیش خدمت ہےکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہےکہ"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان آدمی پرلازم ہے. (مراۃ المناجیح, جلد5,ص360,حدیث3494,حسن پبلیشرز, اردوبازارلاہور)

یعنی سلطان اسلام کاجائزحکم تمہاری طبیعت کےخلاف ہویاموافق قبول کرولیکن اگروہ خلاف شرع حکم دےتواس کی فرمانبرداری نہ کی جائےاوراس بناپربغاوت بھی نہ کی جائے۔

4 عدمِ بغاوت اور حاکم کے لئے دعا: حاکم اگر اسلام سے باغی نہ ہو تو اسکی بغاوت جائز نہیں اگر کوئی خلافِ شرع بات دیکھے تو حاکم کی اصلاح کریں ناکہ اس کی بغاوت پہ جمع ہوجائیں بلکہ اصلاح کریں اور حق و انصاف پر قائم رہنے کی دعا کریں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے فرماتے ہیں"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے حاکم سے ناپسندیدہ چیز دیکھے تو صبر کرے کیونکہ نہیں ہے کوئی جو جماعت سے بالشت بھرالگ رہے پھر مرجائے مگر وہ جاہلیت کی موت مرے گا.

اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں یعنی اگر حاکم یا سلطان میں کوئی شرعی یا طبعی یا اخلاقی نقص دیکھے تو صرف اس وجہ سے اس پر خروج نہ کرے اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرے.(مراۃ المناجیح, جلد5,کتاب الامارۃ والقضاء, ص362,حدیث3497,حسن پبلیشرز,اردوبازارلاہور)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔