مزمل حسن خان (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
تم میں سے ہر
شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہوگا (صحیح بخاری : 2554)
برصغیر کے مشہور
عالم، فقہیہ، محدث اور مؤرخ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے سیرت کا مفہوم حسب ذیل
لکھا ہے۔وہ احادیث جو آقا کریمؐ کے وجود سے متعلق، ولادت با سعادت سے وصال شریف
تک، صحابہ کرام اور اہل بیت اظہار سے متعلق ہوں، ان سب کو اسلامی علوم و فنون کی
اصطلاح میں سیرت کہتے ہیں (عجالہ نافعہ، ص 97)۔اسی طرح آقا کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے اقوال، افعال، احوال اور خصائص وشمائل بھی سیرت کا حصہ ہیں۔
بنیادی حقوق
انسانی سے مراد وہی حقوق ہیں، جنہیں اسلامی علوم وفنون کی اصطلاح میں حقوق العباد
کہا جاتا ہے۔ اسلام میں حقوق العباد کی ادائیگی پر بہت زور دیاگیا ہے اور آقا کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال و سیرت سے اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ حقوق
العباد کی ادائیگی سے معاشرے سنورتے ہیں اور اس میں افراط و تفریط سے انسانی
معاشروں میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔
حقوق انسانی
کی بہت ساری جہتیں ہیں، جن میں اساتذہ اور طلباء کے حقوق، والدین کے حقوق ، اولاد
کے حقوق ،رشتہ داروں کے حقوق، زوجین کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، یتیموں کے حقوق،
فقراء و مساکین کے حقوق، افسران اور ماتحتوں کے حقوق، غلاموں کے حقوق، حکمرانوں
اور رعایا وغیرہ کے حقوق شامل ہیں۔ چونکہ بنیادی انسانی حقوق کا تعلق فردومعاشرہ
سے ہے اور معاشرے کے اہم ترین اجزاء دو ہیں،ایک حکمران دوسرے رعایا۔ان دونوں کے
حقوق وفرائض کے تعین اور ادائیگی سے ہی معاشروں کا عروج وزوال جڑا ہوتا ہے۔ سیرت
النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان دونوں کے حقوق وفرائض کو قدرے تفصیل سے بیان کیا
گیا ہے۔ جنہیں ہم دو حصوں میں بیان کریں گے۔ اس مضمون میں ہم ’’حکمران کے حقوق
وفرائض، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ‘‘ بیان کریں گے۔
علامہ شبلی
نعمانی نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدمہ میں سیرت نگاری کے جو اصول ذکر
کیے ہیں، ان میں پہلا اصول حسب ذیل ہے۔ سب سے پہلے واقعہ کی تلاش قرآن مجید میں،
پھر احادیث صحیحہ میں، پھر عام احادیث میں کرنی چاہیے ، اگر نہ ملے تو روایات سیرت
کی طرف توجہ کی جائے۔پھر تیسرا اصول بیان کیا کہ ’’سیرت کی روایتیں بااعتبار پایۂ
صحت، احادیث کی روایات سے فروتر ہیں، اس لیے بصورت اختلاف احادیث کی روایات کو
ہمیشہ ترجیح دی جائے گی۔(مقدمہ سیرت النبی، ص64) ۔
کسی ملک میں
کا نظام چلانے اور اس میں امن وسکون قائم کرنے اور رکھنے کے لیے دوباتیں ضروری
ہیں۔(1) حکمران کا عادل ومنصف اور عوام کے دکھ درد کو سمجھنے والا ہونا۔(2) عوام
کا اپنے حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنا ۔ حکمرانوں کے بارے میں فرمان رسولؐ ہے کہ ’’
سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اُس دن اللہ اپنے (عرش) کا سایہ دیں گے، جس دن کوئی سایہ
نہیں ہوگا،ان میں سے ایک عادل حکمران ہے‘‘۔ (صحیح بخاری:1423)
حضرت عبداللہ
بن عمر ؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں سے ہر شخص
حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہوگا اس کی رعیت کا (حاکم سے مراد منتظم اور نگران کار
اور محافظ ہے)، پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا اس
کی رعیت کاکہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان ومال کی حفاظت کی یا نہیں۔
آدمی حاکم ہے اپنے گھر والوں کا اس سے سوال ہوگا ان کا۔ عورت حاکم ہے اپنے خاوند
کے گھر کی اور بچوں کی۔ اس سے ان کا سوال ہوگااور غلام حاکم ہے اپنے مالک کے مال
کا،اس سے اس کا سوال ہوگا‘‘(صحیح بخاری:2554، 5188، 7528)
رعیت کے حقوق
میں خیانت کرنے سے مراد ہے کہ حاکم کے لیے اپنی رعیت کے دین اور دنیا دونوں کی
اصلاح ضروری ہے، پھر اگر اس نے لوگوں کا دین خراب کیا اور حدود شرعیہ کو ترک کیا،
یا ان کی جان و مال پر ناحق زیادتی کی، یا اور قسم کی ناانصافی کی، یا ان کی حق
تلفی کی، تو اس نے اپنے فرض منصبی میں خیانت کی، اب وہ جہنمی ہوا۔ اگر اس کام کو
حلال جانتا تھا تو ہمیشہ کے لیے جنت سے محروم ہوا۔( حقو ق انسانیت اسلام کی نظر
میں، ص 234)
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔