ابو ثوبان عبدالرحمن عطاری (درجۂ سابعہ مرکزی
جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
کسی بھی
معاشرہ میں زندگی کےمعاملات کو صحیح طور پر چلانے کیلئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا
ضروری ہے ، شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں
رہ سکتا ، اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب
تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو، اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی
بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی
اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے، اس لئے اس امر
کی معرفت ضروری ہی کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔
اس کے
پیش نظر اس ماہ میں رعایا پر حاکم کے حقوق و فرائض ذکر کیے جاتے ہیں ملاحظہ ہوں۔
اللہ پاک نے اپنی کتاب میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ
اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ5، النساء: 59) ترجمۂ
کنز الایمان: اے ایمان والوحکم مانو اللہکا اورحکم مانو رسول کااور ان کا جو تم
میں حکومت والے ہیں۔
تفسیر
صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم
ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی
جائے گی۔
(1) اطاعت کرنا: جو شخص کسی بھی طرح سے حاکم بن چکا ہے ، اسکی اطاعت و
فرمانبرداری ہر فرد بشر پر واجب ہے، بشرطیکہ وہ شریعت کے مطابق ہو۔ جیسا کہ حضرت
سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ پاک کی اطاعت کی اور جس نے
میری نافرمانی کی اُس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اُس
نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔(بخاری،
کتاب الجھاد، باب یقاتل من وراء الامام الخ ،2/ 297، حدیث: 2957)
(2,3)
اسکی اچھائی پرشکر اور بُرائی پر صبرکرنا:
حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ میں نے مکی مدنی سلطان صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: مجھے ایسے سلطان
کے بارے میں بتایئے جس کے آگے گردنین جھکی ہوں اور اس کی اطاعت کی جاتی ہوکہ ایسا
سلطان کیسا ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ زمین پر اللہ پاک سایہ ہے اور جب وہ تمہارے ساتھ
اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اورتم پر شکرلازم ہے اور اگر بُرا سلوک کرے تو
اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔(شعب الایمان،باب فی طاعة اولى
الامر،فصل فی فضل الامام العادل،6/15،حدیث:7369)
(4) ان کی عزت کرنا:
حضرت سیِّدُناحسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی سے
مروی ہے کہ آپ نےحجاج سے کہاکہ میں نے حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن
عباس رضی اللہ عنہ کوفرماتےسناکہ سلاطین کی عزت و توقیر
کروکیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور
سایہ ہوں گے۔( ربیع الابرار،الباب الثانی والثمانون،5/163 )
(5) انکے
ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے
، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے ، انہیں
صحیح اور سچا مشورہ دیا جائے ۔چنانچہ ارشادِ باری ہے : ا ُدْعُ اِلٰى
سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ترجَمۂ کنزُ الایمان : اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی
نصیحت سے۔ (سورۃ النحل؛125)
اللہ پاک
ہمیں جو سیکھا اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔