عبدالمنان الطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ
فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
معاشرے کا
حکومتی نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے۔ دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے
ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور رعایا کو حکمرانوں کا حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے۔ جیسے
حکمرانوں پر رعایا کی دیکھ بھال لازم ہے ویسے ہی رعایا پر بھی اپنے حکام کی اطاعت
و فرمانبرداری لازم ہے۔حضور نبی رحمت شفیع أُمَّتَ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ” جب اللہ عزوجل کسی
قوم کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو حلیم و بردبار لوگوں کو ان کا حاکم ،
علما کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے والا اور سنجیوں کو مالدار بنا دیتا ہے اور جب
کسی قوم کے ساتھ بُرائی کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کے بے وقوفوں کو ان کاحاکم،
جاہلوں کو ان کا قاضی اور ان کے بخیلوں کو مالدار بنادیتا ہے۔
الله عَزَّ
وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا
أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُواالرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِمِنْكُمْ (النساء:5
(59)
ترجمہ:اے
ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے
حکومت والے ہیں۔ کہ رسول کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے۔
بخاری و مسلم کی حدیث ہے : سید عالم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری
نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی نے اس حدیث میں حضور فرماتے ہیں : جس نے
امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری
نافرمانی کی ، اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلم امراء و حکام کی اطاعت واجب ہے جب تک وہ
حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں توان کی اطاعت نہیں ۔ (کنزالایمان
مع تفسیر خزائن العرفان،ص171تا172)
(1)حاکم
کا حکم سننا: ترجمہ
: حضرت سیدنا ابن عمر رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا سے مروی ہے کہ حضور نبی
اکرم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”ہر
مسلمان پر (حاکم کا حکم ) سننا اور اس کی اطاعت کرنا لازم ہے چاہے اس وہ حکم پسند
ہو یا نا پسند،سوائے گناہ کے حکم کے کہ جب گناہ کا حکم دیا جائے تو اسے نہ سننا
لازم ہے اور نہ ہی اس کی اطاعت کرنا لازم۔( مسلم،کتابالامارۃ،بابوجوب
طاعۃالامراء۔۔الخ 879حدیث4863)
(2)حکام
کی اطاعت، رب تعالیٰ کی اطاعت: حضور نبی کریم، رَءُوفٌ رَّحیم صَلَّى
اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ” اپنے حکمرانوں کی
اطاعت کرو ان کی مخالفت نہ کرو۔ ان کی اطاعت میں اللہ عَزَّ وَجَل کی اطاعت اور ان
کی نافرمانی میں اللہ کا دین کی نافرمانی ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے اس لئے
مبعوث فرمایا ہے تاکہ میں لوگوں کو حکمت و بصیرت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اس کے
راستے کی طرف بلاؤں۔ لہذا جو میرے اس کام میں میرا جانشین ہوا وہ مجھ سے ہے اور
میں اسے ہوں اور جس نے اس معاملے میں میری مخالفت کی وہ ہلاک ہونے والوں میں ہے
اور اللہ عزو جل اور اس کے رسول صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالله وَسَلَّم
کے ذمہ سے بری ہے اور جو تمہاری حکومت کی کوئی ذمہ داری سنبھالے پھر اس میں میری
سنت کے خلاف عمل کرے تو اس پر اللہ ملا جلا اسکے ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت
ہے۔ ( كنزالعمال، كتاب الامارة من قسم الاقوال ، اطاعة الامير من الأكمال، 3/ 24 ،
حدیث : 14734 ، الجزء السادس )
(3)حاکم
کی اطاعت کرنا: حضرت
سیدنا انس رَضِيَ اللهُ تَعَالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم زاؤف رحیم صلی
اللہ تعالی عَلَيْهِ وَالهِ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”سنو اور اطاعت کرو، اگر
چہ تم پر حبشی غلام کو حاکم بنادیا جائے جس کاسر کشمش کی طرح ہو۔“ (بخاری، کتاب
الاحکام، باب السمع والطاعة للامام مالم تكن معصية، 454/4، حدیث: 8142)
حضرت
سَیِّدُنا أَبُوهُنَيْدَه وائل بن حجر رضي الله تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سلمہ
بن یزید يُعفى رَضِ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ نے رسولِ کریم صلى الله تَعَالَى
عَلَيْهِ وَالِهِ وَسلم سے عرض کی: یارسول الله صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ الہ
وسلم! اگر ہم پر ایسے حکمران مقرر ہو جائیں جو ہم سے اپنے حق کا سوال کریں اور
ہمارے حق سے ہمیں منع کریں تو آپ صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالهِ وَسَلَّم
ہمیں کیا حکم ارشاد فرماتے ہیں؟ یہ سن کر حضور صلی الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَاللهِ
وَسَلَّم نے اُن سے اعراض فرمایا۔ انہوں نے پھر سوال کیا تو فرمایا: ”سنو اور
اطاعت کرو، بے شک اُن پر وہ لازم ہے جس کے وہ پابند کئے گئے ہیں اور تم پر وہ لازم
ہے جس کے تم پابند کئے گئے ہو ۔ “ (مسلم، كتاب الامارة ، باب في طاعة الامراء وان
منعوا الحقوق، ص 792، حدیث: 4782۔)
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔