معاشرہ حکومتی نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے دین اسلام حکمرانوں کو رعایہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور رعایا کو حکمرانوں کا حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے اچھے حق ان کو رحمت الہی قرار دیا گیا ہے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائے مقرر کی ہوئی ہے. ائیے ہاکنگ کے کچھ حقوق پڑھتے ہیں:

(1)حاکم کی اطاعت کا قرانی حکم: اللہ عزوجل قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی اور اطاعت کرو اپنے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی اور حکمرانوں کی جو تم میں سے ہوں.(النساء،آیت 59)

علامہ اسماعیل حقی علیہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں اس ایت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جب بادشاہ اور حکمران قران و سنت کی پیروی کریں تو رعایہ پر ان کی تابعداری واجب ہے اگر کتاب و سنت کے خلاف کام کریں تو ان کی اطاعت ہرگز لازم نہیں.

(2) اطاعت امیر کی ترغیب حدیث کی روشنی میں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے میری اطاعت کی اس نے اللہ عزوجل کی اطاعت کی اور جس شخص نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی (ایمان کی شاخیں مترجم،ص 456)

(3) امیر کی عزت و رسوائی کے بارے میں حدیث: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے اللہ کے سلطان کی دنیا میں عزت کی اللہ تعالی اس کو قیامت والے دن عزت دے گا اور جس نے اللہ کی سلطان کی دنیا میں توہین کی اللہ اس کو قیامت کے دن رسوا کرے گا. (ایمان کی شاخیں مترجم،ص 457)

(4) امیر کی اطاعت: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کسی مخلوق کی اطاعت اس وقت واجب نہیں رہتی جب وہ خالق کی نافرمانی کا حکم دے.(ایمان کی شاخیں مترجم،ص 458)

(5) حاکم کی اطاعت لازم ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام کو حاکم بنا دیا جائے جس کا سر کشمش کی طرح ہو. (صحیح بخاری،کتاب الاحکام،454/4،حدیث 7162)

اللہ عزوجل میں حاکم کی اطاعت کرنے اور اس کا حکم ماننے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔