حنین رضا (درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ
فیضانِ حسن و جمالِ مصطفٰی کراچی پاکستان)
ہمارا جو موضوع ہے مالی حقوق دبانے کی مذمت پر احادیث کی
روشنی میں ۔ اسی ضمن میں پہلے ایک آیت اور چند احادیث مبارکہ پیش کی جائیں گی اس
سے پہلے ایک آیت مبارکہ پڑھئے : ﴿ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ
بِالْبَاطِلِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ
۔ (پ5، النسآء:29) اس آیت میں باطِل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا
خواہ لُوٹ کر ہو یا چھین کر، چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا
حرام چیزوں کے بدلے یا رِشْوت یا جھوٹی گواہی سے ، یہ سب ممنوع وحَرام ہے ۔
حدیث (1) صحیح بخاری و صحیح
مسلم میں سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں جس نے ایک بالشت زمین ظلم کے طور پر لے لی قیامت کے دن
ساتوں زمینوں سے اتنا حصہ طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔( صحیح بخاری
کتاب بدء الخلق، حدیث : 3198)
حدیث (2) صحیح بخاری شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور اقدس
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ بھی ناحق
لے لیا قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔(صحیح بخاری کتاب بدء
الخلق ،حدیث : 3196)
حدیث (4،3) امام احمد نے یعلٰی بن مرّہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ناحق زمین لی قیامت کے دن اسے یہ تکلیف
دی جائے گی کہ اس کی مٹی اٹھا کر میدان حشر میں لائے۔ (بہارِ شریعت ، غصب کا بیان،
3/ 207)
دوسری روایت امام
احمد نے انہیں سے یوں ہے کہ حضورِ اقدس
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ایک بالشت زمین ظلم کے طور پر لی،اللہ
پاک اسے یہ تکلیف دے گا کہ اس حصہ زمین کو کھودتا ہوا سات زمین تک پہنچے پھر یہ سب
اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا اور یہ طوق اس وقت تک اس کے گلے میں رہے
گا کہ تمام لوگوں کے مابین فیصلہ ہو جائے۔(مسند احمد بن حنبل ،حدیث : 17569)
حدیث (5) بیہقی نے شعب الایمان اور دارقطنی نے مجتبیٰ میں ابوحرہ رقاشی سے روایت کی کہ
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : خبردار تم لوگ ظلم نہ کرنا
سن لو کسی کا مال بغیر اس کی خوشی کے حلال نہیں۔ (بہار شریعت، 3/ 208)
حدیث (6) امام احمد ترمذی ابو داؤد ابن ماجہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سعد ابن ربیع کی بیوی سعد سے اپنی دو
بیٹیوں کو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں لائی اور عرض کی یا
رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دونوں سعد کی بیٹیاں ہیں ۔ ان کا باپ
کے ساتھ احد میں شہید ہو گیا اور ان کے چچا نے کل مال لے لیا ہے ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا اور جب تک ان کے پاس
مال نہ ہو ان کی شادی نہیں کی جاسکتی تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: اس بارے میں اللہ پاک فیصلہ فرما
دے گا تو آیت میراث نازل ہوگئی اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ان لڑکیوں کے چچا کے پاس یہ حکم بھیجا کہ سعد کی دونوں بیٹیوں کو ثلث دو تہائی دے
دو اور لڑکیوں کی ماں کو آٹھواں حصہ دے دو اور باقی جو بچے وہ تمہارا ہے۔(جامع
الترمذی کتاب الفرائض ،حدیث : 2099)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اس قسم کی بری
عادت سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین