اسلام ایک امن پسند کامل ترین ، لاجواب خوبیوں کا حامل انسانی طبیعت و فطرت کے عین مطابق آسمانی اور سچا دین ہے۔  یہ جس طرح اپنے ماننے والو کو عبادات و عشقِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا درس دیتا ہے اسی طرح اسلامی معاشی اصولوں پر کار بند رہ کر سچائی اور امانت داری کے ساتھ تجارت کرنے اور دوسروں کے مالی حقوق کی ادائیگی کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ مگر فی زمانہ اسلامی تعلیمات پر بحیثیتِ مجموعی عمل کمزور ہونے نے کی وجہ سے رشوت، چوری، دھوکا دہی، خیانت ، غصب، ناپ تول میں کمی کرنے اور بھی کئی طریقوں سے دوسروں کے مالی حقوق کو دبایا جاتا ہے حالانکہ قراٰن و احادیث میں اس کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ ۔ (پ5، النسآء:29) صراط الجنان میں ہے کہ: اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کرہو یا چھین کر ،چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔(احکام القرآن، باب ما یحلہ حکم الحاکم وما لا یحلہ،1/ 304) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اس آیت سے مراد وہ چیزیں ہیں جو انسان ناحق حاصل کر لیتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب مترجم، ص 473 ،مطبوعہ مكتبۃُ المدینہ کراچی)

اسی طرح بہت سی احادیثِ کریمہ میں ناحق مال کھانے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ جن میں سے پانچ ملاحظہ ہوں:

( 1) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : چار شخص ایسے ہیں جن کے لئے اللہ پاک نے لازم کردیا ہے کہ انہیں جنت میں داخل نہیں کرے گا اور نہ ہی وہ اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے، شرابی، سودخور، ناحق یتیم کا مال کھانے والا اور والدین کا نافرمان۔( المستدرک للحاکم ،کتاب البیوع ، باب اربی الربا۔۔۔الخ ، 2/338، حدیث: 2307)

(2) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو شخص پرایا مال لے لے گا وہ قیامت کے دن اللہ پاک سے کوڑھی (یعنی برص کا مریض) ہو کر ملے گا۔( المعجم الکبیر،1/233،حدیث:637)

(3) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : یتیم کا مال ظلماً کھانے والے قیامت میں اس طرح اُٹھیں گے کہ ان کے مُنہ، کان اور ناک سے بلکہ ان کی قبروں سے دُھواں اُٹھتا ہو گا جس سے وہ پہچانے جائیں گے کہ یہ یتیموں کا مال ناحق کھانے والے ہیں۔( دُرِّمنثور،2/443،پ4،النسآء،تحت الآیۃ:10)

(4) حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ملعون (لعنت کیا گیا) ہے وہ شخص جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا ۔ ترمذی كتاب البر والصله باب ماجاء في الخيانۃ والغش، ص 475 ،حدیث :1941)

(5)نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : خبردار ظلم نہ کرنا، خبردار کسی شخص کا مال دوسرے کو حلال نہیں مگر اس کی خوش دلی سے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشكوة المصابیح، جلد 4 ،حدیث: 2946)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ذرا غور کیجئے کسی کے مالی حقوق دبانے کا کیا فائدہ محض دنیاوی عیش و عشرت۔ جبکہ اس کے مقابلے الله و رسول کی ناراضگی ، ایمان کی دولت چھن جانے کا خطرہ، نیکیوں کا ضائع ہو جانا، عبادات کا مقبول نہ ہونا، دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب اور بغیر حساب جہنم میں داخلہ۔ لہذا یہ ایک مذموم فعل ہے اور ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازمی ہے۔ مذکورہ فعل میں مبتلا ہونے کے بہت سے اسباب ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں : (1) علم دین کی کمی (یعنی دوسروں کے مال کے شرعی احکام معلوم نہ ہونا ) (2) مال و دولت کی حرص (3)دنیا کی محبت (4) راتوں رات امیر بننے کی خواہش (5) مفت خوری کی عادت اور کام کاج سے دور بھاگنا (6) بری صحبت۔ اللہ پاک ہمیں دوسروں کے مالی حقوق کی ادائیگی اور دینی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم