زندگی میں انسان کا واسطہ مختلف چیزوں سے پڑتا ہے کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہے جن کو پورا کرنا ضروری نہیں ہوتا ۔ تمام چیزوں کے متعلق ہماری رہنمائی کرنے کے لئے قرآن اور حدیث موجود ہے ۔ وہ چیز انسان کے ظاہر سے متعلق ہو یا باطن سے تعلق رکھتی ہو ۔ ظاہر پر شریعت کا حکم لگتا اور باطن پر شریعت کا حکم نہیں لگتا ظاہری اور باطنی چیزوں کے متعلق قرآن وسنت نے ہماری واضح طور پر رہنمائی فرمائی ہے۔

ظاہری میں سے ایک گواہی بھی ہے گواہی دینا بہت اچھی بات ہے آج کل اکثر لوگ گواہی دینے سے ڈرتے ہیں جو گواہی دینے کی کوشش کرتے ہیں ان میں سے کچھ لالچ میں آکر یا کسی کے دباؤ میں آکر جھوٹی گواہی دے دیتے ہیں۔ اور جو بندہ سچی گواہی دیتا ہے اللہ تعالٰی کی رحمتوں کا حقدار ٹھہرتا ہے جو جھوٹی گواہی دیتا ہے وہ اللہ اور اسکے رسول کی اپنے ناراضگی کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ جھوٹی گواہی کے متعلق چند احادیث ملاحظہ کیجئے:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (صراط الجنان، جلد 7 ،ص 64۔ بخاری ، کتاب الديات، باب قول اللہ تعالٰی و من احباها، 4/385، حدیث:6871)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالٰی اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔( سنن ابن ماجہ ،جلد 4، ص 109 )

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے جائے کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں ہے تو وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمے کی پیروی کرے وہ اللہ تعالٰی کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔( سنن الکبری، کتاب الوکالۃ، حدیث:11444)

اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲) ترجمۂ کنزالایمان: اورجو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اورجب بیہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں۔ (پ19، الفرقان:72)

اس کی تفسیر میں مفتی قاسم صاحب فرماتے ہیں: کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے وہ جھوٹ بولنے والوں کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں ان کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے ۔

قرآن و حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو شخص جھوٹی گواہی دیتا ہے وہ اللہ اور اسکے رسول کی ناراضگی کا حقدار بن جاتا ہے۔ صد کروڑ افسوس فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے۔ جھوٹی گواہی دینے والا یہ نہیں سمجھتا کہ میری ایک جھوٹی گواہی دینے سے کسی مسلمان کی جان چلی جائے گی ، یا کسی کا مال ہلاک ہو جائے گا یا کسی مسلمان کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ آج فی زمانہ ظالم اور مالدار تو عیش وعشرت کی زندگی گزارتے ہیں کیونکہ وہ لالچ دے کر جھوٹے گواہ بنالیتے ہیں جسکی وجہ دوسرا مسلمان ظلم کی چکی میں پستا ہے اور وہ اپنے حق سے محروم ہو جاتا ہے مظلوم بیچارہ اپنے معاشر ے میں رسوائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کاش کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی عزتوں کے محافظ بن جائیں جو شخص سچی گواہی دیتا ہے اگر چہ اسکو ظاہری طور پر کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہوتا مگر اللہ تعالی اسے دنیا میں بھی بلندیاں عطا فرماتا ہے اور آخرت میں بلندیاں عطا فرماتا ہے۔