آج کل اعمالِ صالحہ کی طرف سے بہت غفلت ہے اور گناہوں کی طرف رغبت زیادہ ہے۔ ورع اور تقوی کی جانب بہت کم توجہ ہے۔ جو لوگ دیندار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی گناہوں میں مبتلا ہیں اور ہر ایک نے اپنی مرضی سے تھوڑی بہت دینداری اختیار کر رکھی ہے جس نے جتنا دین اپنا رکھا ہے اس کو کافی سمجھے ہوئے ہے اور باقی دین میں جو شریعت کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں ان سے بچنے کا بالکل اہتمام نہیں اور لاکھوں افراد ایسے ہیں جو اپنے دعویٰ میں مسلمان ہیں لیکن گناہوں میں سر سے پاؤں تک لت پت ہیں اور فسق و فجور میں اس حدتک بڑھ گئے ہیں کہ گنا ہوں کو ترک کرنے اور توبہ و استغفار کی طرف توجہ نہیں دیتے بلکہ ان میں بہت سے افراد ایسے ہیں کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اتنے گناہ کر لئے ہیں اب کیا تو بہ قبول ہوگی، جبکہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: آپ میری طرف سے فرما دیجیئے کہ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جان پر ظلم کیا الله کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ، بے شک اللہ سےا وہ غفور و رحیم ہے۔

توبہ کا معنی ہے کہ اللہ کی طرف رجوع ہونا اور استغفار کا معنی ہے مغفرت طلب کرنا یعنی معافی مانگنا۔ زبان سے توبہ کے الفاظ ادا ہوں یا استغفار کے، اگر دل میں ندامت اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم ہو تو ہی توبہ ہے۔

احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ استغفار کے بہت سے دینی و دنیوی منافع ہیں، ایک حدیث پاک میں ہے: رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو بھی کوئی مسلمان گناہ کرتا ہے تو (جو) فرشتہ اس کے لکھنے پر مامور ہے وہ(تین گھڑی) یعنی کچھ دیر توقف کرتا ہے۔ پس اگر اس نے استغفار کر لیا تو وہ گناہ اس کے اعمال نامے میں نہیں لکھتا اور اس پر اللہ اس کو قیامت کے دن عذاب نہ دے گا۔