ہمیں ہر حال میں توبہ و استغفار کرنی چاہیے اور برے کاموں سے بچنا چاہیے استغفار سے گناہ کم ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس کے بارے میں بے شمار فضائل ہیں، ارشاد باری ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) (پ 3، آل عمران: 135) ترجمہ: اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے۔

استغفار کے فوائد و فضائل حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں: چنانچہ

1۔ رسول اللہ ﷺ اکثر یہ پڑھا کرتے: اے الله پاک تیری ذات پاک ہے اور سب تعریفیں تیرے لیے ہیں اے الله پاک میری مغفرت فرما بے شک تو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (کتاب الدعاء للطبرانی، ص193، حدیث:597)

2️۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: بلاشبہ میں روانہ ستر70 مرتبہ الله پاک سے توبہ کرتا ہوں۔ حالانکہ آپ کے صدقے اگلے پچھلے لوگوں نے بھی مغفرت کی نعمت پائی۔

3۔ الله پاک جنت میں بندے کو ایک درجہ عطا فرمائے گا بندہ عرض کرے گا اے مولی یہ درجہ مجھے کیسے ملا؟ الله پاک ارشاد فرمائے گا: اس استغفار کے بدلے جو تیرے بیٹے نے تیرے لیے کیا۔ (مسند امام احمد، 3/584، حدیث:10715)

4۔ معافی مانگ لینے والا گناہ پر اڑا رہنے والا نہیں اگرچہ دن میں 70 بار گناہ کرے۔ (ابو داود، 2/121، حدیث:1514)

5۔ بندہ جب کوئی گناہ کر بیٹھے پھر کہے اللھم اغفرلی یعنی یا الله مجھے معاف فرما تو الله پاک فرماتا ہے میرے بندے سے گناہ ہو گیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا رب گناہ پر پکڑ بھی فرماتا ہے اور بخش بھی دیتا ہے اے میرے بندے جو چاہے کر میں نے تیری بخشش فرما دی۔ (مسلم، ص 1474،1475، حدیث:3758)

ہر انسان کو چاہیے کہ اولاً تو خود کو گناہوں سے بچائے اور اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہو بھی جائے تو فوراً توبہ کر کے اپنے رب کی طرف رجوع کرے بے شک رب کریم بہت توبہ قبول فرمانے والا ہے۔

اے میرے رب! ہمیں گناہوں سے بچنے اور توبہ استغفار کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین