ابو المسعود عارف علی مدنی(مدرس جامعۃ المدینہ فیضان اہلِ بیت کراچی، پاکستان)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ پاک کی نافرمانی و ناراضگی
کے موجب تمام افعال افعالِ قبیحہ ہیں مگر ان میں ایک عملِ قبیح جو قباحت کے
انتہائی درجے پر اسے ہم بدکاری یعنی زنا کہتے ہیں۔
یہ ایک ایسا بدترین گناہ ہے جو اپنے اندر شر کی تمام خصلتیں
مثلاً دین کی تعلیمات سے دوری، پارسائی کا خاتمہ، بے حیائی کی آفت، خاندان کا
بگاڑ، معاشرے کا زوال، مروت و اخلاق کی بربادی، نسلوں کی تباہی، قلت غیرت وغیرہ کو
سموئے ہوئے ہے۔ جس سے نہ صرف یہ عمل کرنے والا تباہ ہوتا ہے بلکہ پورا معاشرہ اس
کی وجہ کر متاثر ہوتا ہے۔
قید
و بند کی صعوبت کو ترجیح دینا:بدکاری ایسا قبیح
فعل ہے کہ اس کے شر سے حفاظت کے لئے اور دعوت برائی قبول کرنے کے بجائے حضرت یوسف علیہ
السّلام نے قید و بند کی صعوبت اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ قراٰن اسے یوں بیان
فرماتا ہے:قَالَ رَبِّ السِّجْنُ
اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَیْهِۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: یوسف نے عرض کی اے میرے رب مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس
کام سے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں۔(پ12،یوسف:33)
موت کی خواہش:زنا کی چھوٹی تہمت
و بہتان کی خوف سے حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے موت کی تمنا اور بھولا بسرا ہونے کو
ترجیح دی اور اس کی خواہش کی۔ جیسا کہ اللہ پاک نے
ارشاد فرمایا: فَاَجَآءَهَا
الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِۚ-قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ
كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا(۲۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: پھر اسے جننے کا
درد ایک کھجور کی جڑ میں لے آیا بولی ہائے کسی طرح میں اس سے پہلے مَرگئی ہوتی اور
بھولی بسری ہو جاتی۔(پ16،مريم: 23)
خصی ہونے کی اجازت:حتی کہ بعض
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس بدکاری اور اس کے شر سے بچنے کے لئے خصی
ہونے کی بھی اجازت نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے چاہی ۔ جیسا کہ امام
بخاری نے روایت میں یہ الفاظ نقل فرمایا: الا نستخصي (صحیح بخاری، کتاب النکاح: 5075)
زنا کی مذمت اور زنا سے بچنے والے مرد و عورت سے متعلق پانچ
فرامین مصطفی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نذرِ قارئین کیا جاتا ہے۔
مؤمنین کی صف سے
خارج: عَنْ
ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ
عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: لَا يَزْنِي الْعَبْدُ حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بندہ جب زنا کرتا ہے تو وہ مؤمن نہیں رہتا۔ (صحیح
بخاری، حدیث: 6809)
ہلاکت: قَالَتْ زَيْنَبُ
بِنْتُ جَحْشٍ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَنَهْلِكُ
وَفِينَا الصَّالِحُونَ ؟، قَالَ: نَعَمْ، إِذَا كَثُرَ الْخُبْثُ.ترجمہ: زینب بنت جحش رضی
اللہُ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسولُ اللہ! تو کیا ہم اس کے
باوجود ہلاک ہوجائیں گے کہ ہم میں نیک صالح لوگ بھی زندہ ہوں گے؟ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ ہاں جب بدکاری بہت بڑھ جائے گی۔
(صحیح بخاری، حدیث: 7135)
موت: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
قَالَ : وَلاَ فَشَتِ الْفَاحِشَۃُ فِی قَوْمٍ إِلاَّ أَخَذَہُمُ اللَّہُ
بِالْمَوْتِ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نہیں پھیلتی
کسی قوم میں بے حیائی مگر اللہ پاک ان کو موت کے ساتھ پکڑتا ہے۔
(سنن کبریٰ للبیہقی، کتاب الاستسقاء، حدیث: 6398)
سایہ عرش: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کیا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سات
طرح کے آدمی ہوں گے۔ جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ
کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (ان لوگوں میں ایک شخص وہ بھی ہوگا) وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ
امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ،
ترجمہ : وہ شخص جسے کسی منصب والی اور حسین عورت نے (برے
ارادہ سے) بلایا لیکن اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (صحیح
بخاری، حدیث: 660)
جنت
کی بشارت: عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا
بَيْنَ لَحْيَيْهِ، وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ. ترجمہ: رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو شخص مجھے دونوں جبڑوں کے درمیان
کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) کی ذمہ داری دیدے میں
اس کے لئے جنت کی ذمہ داری دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری،
حدیث: 6474)
اللہ پاک ہمیں اور
ہمارے معاشرے کو خاتم النبیین ،پیکرِ شرم و حیا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
صدقے اس گناہ سے محفوظ فرمائے۔