بدکاری ایک
سنگین ترین گناہ ہے، دین اسلام جہاں زنا سے منع کرتا ہے وہیں اسبابِ زنا کے قریب
جانے سے بھی روکتا ہے شرک کے بعد زنا کی نجاست و خباثت تمام معصیات سے بڑھ کر ہے،
کیونکہ یہ گناہ ایسے ہیں جو دل کی قوت و وحدت کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں اور جب یہ
نجاست دل کو فساد سے بھر دیتی ہے تو یقینا انسان اللہ کی ذات سے دور ہی ہوگا، نیز
ہر گناہ اللہ کی نافرمانی ہے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے اعراض ہے اور اللہ
کا نافرمان دنیا و آخرت میں کہیں چین و سکون نہیں پاتا۔ اسی طرح بہت سی آیات
مبارکہ میں بدکاری کی مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ
کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جو عورت
کسی قوم میں اس کو داخل کر دے جو اس قوم سے نہ ہو (یعنی زنا کرایا اور اس سے اولاد
ہوئی) تو اسے اللہ کی رحمت کا حصہ نہیں ملے گا اور اللہ پاک اسے جنت میں داخل نہ
فرمائے گا۔ (ابو داود، 2/90، حدیث: 2263)
2۔ جس بستی
میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر دیا۔
(مستدرک، 2/339، حدیث: 2308)
3۔ جس قوم میں
زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا وہ رعب
میں گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)
4۔ ساتوں آسمان
اور ساتوں زمینیں بوڑھے زانی پر لعنت کرتی ہیں اور زانیوں کی شرمگاہ کی بدبو جہنم
والوں کو ایذا دے گی۔(مجمع الزوائد، 6 / 389، حدیث: 10541)
5۔ زنا کرنے
والا زنا کرنے کے وقت مؤمن نہیں رہتا، چوری کرنے والا چوری کرنے کے وقت مؤمن نہیں
رہتا اور شراب پینے والا شراب پینے کے وقت مؤمن نہیں رہتا۔ (بخاری، 2/137، حدیث:
2475 )
مذکورہ احادیث
مبارکہ میں زنا کرنے والے کے عذابات بیان کیے گئے ہیں، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس
بری عادت سے خود کی حفاظت کریں تاکہ اس دنیا کی رسوائی سے بھی بچا جا سکے اور آخرت
کی رسوائی سے بھی بچا جا سکے اورجو لوگ کسی وجہ سے نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے تو
انہیں چاہیے کہ کثرت سے روزے رکھیں اور بدکاری حرام کاری سے بچتے رہیں یہاں تک کہ
اللہ پاک انہیں اس حرام کاری سے بچنے پر اجر دے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے جوانو! تم میں سے جو
کوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے تو وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے
سے نگاہ کو روکتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت
نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔ (بخاری،3/422،حدیث:5066)