بدکاری کے
معنی: برے کام کرنے والا، بد فعل، حرام
کار، بدمعاش، زناکار، زانی۔
حکیم
الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فاحشہ (بے حیائی) وہ
گناہ ہے جسے عقل بھی برا سمجھے، کفر اگرچہ بدترین گناہ کبیرہ ہے مگر اسے رب نے فاحشہ
(یعنی بے حیائی) نہ فرمایا کیوں کہ نفس انسانی اس سے گھن نہیں کرتی۔ بہتیر عاقل
(عقلمند کہلانے والے) اس میں گرفتار ہیں مگر اغلام (یعنی بدفعلی) تو ایسی بری چیز
ہے کہ جانور بھی اس سے متنفر ہیں سوائے سور کے۔ لڑکوں سے اغلام حرام قطعی ہے اس کے
حرام ہونے کا منکر (یعنی انکار کرنے والا) کافر ہے، لوطی (یعنی اغلام باز) مرد
عورت کے قابل نہیں رہتا۔ (نور العرفان، ص 200)
الله پاک ارشاد
فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى
اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15،
بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے
حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔
مفسر
شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نور العرفان میں اس آیت
مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: زنا (بدکاری) کے اسباب سے بھی بچو، لہٰذا بدنظری،
غیر عورت سے خلوت (تنہائی)، عورت کی بے پردگی وغیرہ سب ہی حرام ہے، بخار روکنے کے
لیے نزلہ روکو، طاعون سے بچنے کے لیے چوہوں کو ہلاک کرو، پردہ کی فرضیت گانے باجے
کی حرمت نگاہ نیچی رکھنے کا حکم یہ سب زنا (بدکاری) سے روکنے کے لئے ہے۔ (نور
العرفان، پ 15، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: 32)
زنا و دواعی زنا کی مذمت میں آیات
قرآنیہ:
1۔ ارشادِ
خداوندی ہے: وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا
یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَۚ-وَ
مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ(۶۸) یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ
مُهَانًاۗۖ(۶۹) (پ 19، الفرقان: 68-69)
ترجمہ
کنز الایمان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور اس جان کو
جس کی اللہ نے حرمت رکھی ناحق نہیں مارتے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے
وہ سزا پائے بڑھایا جائے گا اُس پر عذاب قیامت کے دن اور ہمیشہ اس میں ذلت سے رہے
گا۔
غیر شادی شدہ
افراد کے لیے زنا کی سزا کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ
مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۪-وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ
اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِۚ-وَ
لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۲) (پ 18، النور: 2) ترجمہ: جو عورت
بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے
اللہ کے دین میں اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی
سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو۔
موبائل
کا استعمال، ڈرامے، ناول وغیرہ پڑھنا:
عشقیہ وفسقیہ
ناول اور افسانے وغیرہ پڑھنا اور حیا سوز ڈرامے دیکھنا بھی بدکاری کی طرف لے جانے
کا بہت بڑا سبب ہے انسان جو کچھ پڑھتا یا دیکھتا ہے اس کا اثر اس کے دل پر ہوتا ہے
اور پھر اسی طرح کے خیالات جنم لیتے ہیں۔ تو جو کوئی ان ناولوں اور ڈراموں میں عشق
و محبت کی داستانوں کو پڑھتا یا دیکھتا ہو وہ خود کو ان حرکتوں سے کیسے روک پائے
گا۔ جن کا بعض اوقات نتیجہ بدکاری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ بدقسمتی سے ان ناولوں
اور ڈراموں کو زیادہ تر خواتین پڑھتی اور دیکھتی ہیں۔ حالانکہ یہ تو وہ نازک سی شیشی
ہیں جنہیں معمولی سی چیز بھی نقصان پہنچا سکتی ہے، چنانچہ
اعلی حضرت
امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ لڑکیوں کو سورۂ یوسف
کا ترجمہ و تفسیر نہ پڑھائیں کہ اس میں عورتوں کے دھوکا دینے کا ذکر فرمایا ہے۔ (فتاوی
رضویہ، 24/455)
نظر
کی حفاظت کرنے والے کے لئے جہنم سے امان ہے:
جو
امردوں اور غیر عورتوں وغیرہ کی موجودگی میں آنکھیں جھکاتا، اپنی گندی خواہش دباتا
اور ان کو دیکھنے سے خود کو بچاتا ہے وہ قابل صد مبارک باد ہے، چنانچہ نصیحتوں کے
مدنی پھول صفحہ 30 پر ہے: اللہ پاک فرماتا ہے کہ جس نے میری حرام کردہ چیزوں سے
اپنی آنکھوں کو جھکا لیا یعنی انہیں دیکھنے سے بچا میں اسے جہنم سے امان (پناہ)
عطا کر دوں گا۔
بدکاری
کے اسباب: معلوم
ہوا کہ اللہ پاک نے نہ صرف بدکاری بلکہ بدکاری کی جانب لے جانے والے اسباب سے بھی
بچنے کا حکم فرمایا ہے تاکہ ان سے بچ کر ہم پاکیزہ اور ستھری زندگی گزارنے میں
کامیاب ہو سکیں، چند اسباب درج ذیل ہیں:
1۔ اجنبی عورتوں
سے بے تکلف ہو نا اور انہیں چھو نا وہ مس کرنا۔
2۔ اخلاق سوز ناول
اور کتابیں پڑھنا اور حیا سوز ڈرامے اور فلمیں وغیرہ دیکھنا۔
3۔ بدکاری جیسے برے کام کا ایک سبب اجنبی
عورتوں سے یا مردوں سے تعلق دوستی پیدا کرنا۔ ان سے تنہائی میں ملاقات کرنا اور ان
کے ساتھ گفتگو وغیرہ کرنا بے تکلفی ہے۔
بدقسمتی سے آج
کل حالات بڑے ناگفتہ بہ ہیں مردوں اور عورتوں کا اختلاط میل جول عام ہو چکا ہے، بالخصوص
اس کے نظارے مخلوط تعلیمی اداروں اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں عام ہیں آج کی
ہماری نوجوان نسل کس طرح Boy Friend اور Girl
Friend کے منحوس چکر میں شرم حیاء سے ہاتھ دھو
بیٹھی ہے وہ سب پر عیاں ہے، یاد رکھئے! مرد و زن کے اس طرح بے تکلفانہ اختلاط سے
گناہوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے پہلے زمانے میں بھی اگرچہ یہ
دوستیاں ہوتی تھی مگر انہیں چھپانے کی کوشش کی جاتی تھی مگر اب جناب! ہر ہاتھ میں
موبائل ہے رات رات بھر باتیں ہوتی ہیں اور ملنے کے لئے تفریح پارک اور تعلیمی
اداروں کی بلندوبالا دیواریں موجود ہیں، نہ کوئی روکنے والا نہ ٹوکنے والا! اب آپ خود غور فرمائیں ایسی صورت میں کونسی چیز
ہے جو اس لڑکے اور لڑکی کو اس برے کام سے روکے گی؟
حاصل کلام: ہمیں اپنی
کھوئی ہوئی عظمت کو حاصل کرنا ہے تو اس دور جدید کی بد تہذیبی سے جان چھڑا کر اپنے
روشن ماضی کی جانب واپس جانا ہوگا ابتدا گھر سے کرتے ہوئے اپنے گھر کی خواتین کو
شرعی پردے کا اہتمام کا ذہن دینے کی کوشش کرنی ہوگی ان کا ذہن بنانا جہاں شریعت
اجازت دیتی ہے اسی صورت میں گھر سے باہر قدم رکھے اور وہ بھی مدنی احتیاطوں کے
ساتھ جن کا ذہن شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے دیا۔
آپ فرماتے ہیں:
شرعی اجازت کی صورت میں گھر سے نکلتے وقت اسلامی بہن غیر جاذب نظر کپڑے کا ڈھیلا
ڈھالا مدنی برقع اوڑھے ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جرابیں پہنے۔ مگر دستانے
اور جرابوں کا کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ کھال کی رنگت جھلکے۔ جہاں کہیں غیر مردوں
کی نظر پڑنے کا امکان ہو وہاں چہرے سے نقاب نہ ہٹائے مثلا اپنے یا کسی کے گھر کی
سیڑھی اور گلی محلے وغیرہ میں
ہوں۔
ہر ایک یہ
کوشش کریں خود بھی اور اپنے ماتحت کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے برائیوں سے بچانے کی
کوشش کریں۔ یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا انتہائی اہم کام ہے اور
اس کا ترک کردینا دنیا و آخرت برباد کر دینے کا باعث ہے۔ ہمیں ہمیشہ ہمارے پیر و
مرشد کے اس قول پر عمل کرنا چاہیے: مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی
کوشش کرنی ہے۔