بدکاری ایک نہایت قبیح فعل ہے جسے دنیا کا ہر باشعور شخص
خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو برا خیال کرتا ہے۔قرآن و حدیث میں اس کی
مذمت وارد ہوئی اور واضح طور پر فرمایا کہ اس فعل بد کے مرتکب کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اسلاف
نے اس کے خاتمے کے لیے نہایت ہی مضبوط بند بنایا اور دواعی زنا سے بھی منع فرمایا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَ
لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ
کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔
تفسیر
نورالعرفان میں ہے: بد نظری،غیر عورت سے تنہائی وغیرہ سب ہی حرام ہیں۔پردہ کی
فرضیت، گانے بجانے کی حرمت،نگاہ نیچی رکھنے کا حکم یہ سب بدکاری روکنے کے لیے
ہے۔(نور العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ:32 )
آئیے
اس سلسلے میں احادیث مبارکہ میں بیان کردہ چند وعیدیں پڑھیے اور خوفِ خدا سے
لرزئیے۔
دو سانپ:اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا:جو شخص
چوری یا شراب خوری یا بد کاری یاان میں سے کسی بھی گناہ میں مبتلا ہو کر مرتا
ہے،اس پر دو سانپ مقرر کر دیے جاتے ہیں جواس کا گوشت نوچ نوچ کر کھاتے رہتے
ہیں۔(شرح الصدور،ص172)
شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ: حدیث:
پاک میں ہے: جب بندہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو شرک کے بعد اس کا کوئی
گناہ بدکاری سے بڑھ کر نہ ہوگا۔(آنسوؤں کا دریا،ص227ملخصاً)
بھڑکتے تنور کا عذاب:تاجدارِ رسالت ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان
ہے:پھر ہم تنور کی مثل ایک چیز کے پاس سے گزرے۔جب میں نے اس میں جھانکا تو اس میں
ننگے مرد عورتوں کو پایا۔ان کے نیچے ایک
سانپ ان کی طرف آتا اور جب ان تک پہنچتا تو وہ چیخنے لگتے۔ اس حدیث کے آخر میں
ہے:وہ سب زانی مرداور زانی عورتیں تھیں۔(بخاری، 4 /425،
حدیث: 7047)یہ
تو چند اخروی عذاب کا ذکر ہوااس فعل بد کی وجہ سے دنیا میں بھی سزاؤں کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔
اموات کی کثرت:مروی ہےجس قوم میں بد کاری عام
ہوجاتی ہے وہاں اموات کی کثرت ہوتی ہے۔(موطا امام
مالک،2/19، حدیث:1020)
نزولِ عذاب:حدیثِ پاک میں ہےکسی قوم میں
بدکاری اور سود ظاہر نہیں ہوا مگر یہ کہ ان پر اللہ پاک کا عذاب نازل ہوگیا۔(مسند
ابی یعلی، 4/314،حدیث:4960)
بدکار
ی سے بچنے کے لیے اس کےاسباب سے بچنا ضروری ہے۔بے حیائی اور عریانی کے اس اٹھتے
ہوئے طوفان میں اپنی نگاہوں کی حفاظت اور شرعی پردوں کی پاسداری کر کے اس وبا سے
بچا جا سکتا ہے۔اللہ پاک ہم سب کو پیکر شرم و حیا بنا دے۔