آج کل
ہمارے معاشرے میں جو برائیاں تیزی سے پھیل رہی ہیں ان میں ایک برائی بدکاری (زنا)
ہے۔ عورت پر بدکاری کا الزام لگانا بہت خطرناک ہے۔کسی مسلمان پر تہمت یعنی الزام لگانا
حرام قطعی ہے۔قرآنِ کریم میں بھی اللہ پاک نے اس برائی یعنی بدکاری کے پاس جانے سے
منع فرمایا ہے۔
بدکاری کی مذمت:بدکاری(زنا) حرام او ر کبیرہ
گناہ ہے۔بدکاری بے حیائی اور فساد کی جڑ ہے،اس سے دنیا بھر میں بیماریاں بڑھتی چلی
جارہی ہیں۔
بدکاری کی مذمت پر پانچ احادیثِ مبارکہ:بدکاری
زنا کی مذمت پر پانچ احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:
(1)فرمانِ
آخری نبی ﷺ: جب
کسی جگہ بدکاری اور سود عام ہوگئے تو ان لوگوں نے اپنی جانوں کو اللہ پاک کے عذاب
کا مستحق کر دیا۔(مستدرک، 2/399،حدیث:2308)
(2)حضور
اقدس ﷺ نے ارشاد
فرمایا:جب مرد زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا
ہے،جب اس فعل سے جداہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ابو داود،4/ 293،
حدیث: 4690)
(3)حضرت
میمونہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت اس وقت تک بھلائی پر
رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں گےاور جب ان میں
زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ پاک انہیں عذاب میں مبتلا فرما
دے گا۔( مسند امام احمد، 10/246، حدیث:26894)
(4)حضرت
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو
شخص اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے گا تو قیامت کے دن اللہ پاک اس کی طرف نظرِرحمت
نہ فرمائے گا اور نہ ہی اسے پاک کرے گااور اس سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ تم
بھی جہنم میں داخل ہو جاؤ۔ (مسند الفردوس، 2/301،حدیث:3371)
(5)حضرت
مقداد بن اسود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں،نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا: زنا
کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی:زنا حرام ہے،اللہ پاک اور اس کے رسول
ﷺ نے اسے حرام
کیا ہے اور قیامت تک حرام رہے گا۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا
اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زناکرنے (کے گناہ) سے ہلکا ہے۔ (مسند امام حمد، 9/226،
حدیث: 23915)
بدکاری
کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ بڑے گناہوں کا دروازہ کھول دیتی ہے۔اس سے انسان کا
نسب اور عزت تباہ ہو جاتی ہے۔بدکاری قبر اور حشر میں عذاب کا باعث بنے گی۔بدکاری
کرنے والے سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے۔ بدکاری سے چہرے بے رونق اور بے نور ہو جاتے
ہیں۔
اگر
دنیا میں اور آخرت میں چین اور سکون چایئے تو اللہ پاک کی نا فرمانی کو چھوڑ کر
اللہ پاک کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے،گناہوں سےتوبہ کی جائے۔اس سے اللہ پاک
اپنے بندوں کو معاف فرما کر اپنے بندے کو پاکیزہ زندگی عطا فرمائے گا۔جب بھی کسی
گناہ کا خیال دل میں آئے تو یہ تصور کریں کہ اللہ پاک میرے ساتھ ہے اور مجھے دیکھ
رہا ہے، وہ مجھے عذاب دینے پر قادر ہے۔