زنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ ہر مسلمان کو اس سے بچنا بہت لازم ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں یہ کام بھرتا ہی چلا جا رہا ہے، جیسے کہ یہ کوئی گناہ ہی نہ ہو۔اگر ہم کوشش کریں تو اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔اس گناہ کے بھرنے میں ہمارے مسلم حکمرانوں کا ہاتھ بھی ہےکہ وہ اس پر کوئی رد عمل ہی نہیں کر رہے۔ہمارے حکمران ان کی شرعی حد لگانا شروع کر دیں تو یہ گناہ کم ہو سکتا ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو زنا جیسے بد ترین اور مذموم گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

اللہ پاک نے اس کی بہت ساری وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں، چنانچہ

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔

ایک اور مقام پر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ(۶۸) یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًاۗۖ(۶۹) (پ 19، الفرقان: 68-69)

ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور اس جان کو جس کی اللہ نے حرمت رکھی ناحق نہیں مارتے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے وہ سزا پائے بڑھایا جائے گا اُس پر عذاب قیامت کے دن اور ہمیشہ اس میں ذلت سے رہے گا۔

احادیث میں مذمت:نیز کثیر احادیث میں اس کی سخت مذمت اور وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ احادیث ملاحظہ ہوں:

(1) جو شخص اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے گا تو قیامت کے دن اللہ پاک اس کی طرف رحمت کی نظر نہ فرمائے گا اور نہ اسے پاک کرے گا اور اس سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں داخل ہو جاؤ۔( مسند الفردوس، 2/ 301، حدیث: 3371)

(2) جس بستی میں زنا ظاہر ہوگا تو انہوں نے اپنے لیے اللہ پاک کے عذاب کا حلال کر لیا۔( مستدرک،2/ 339، حدیث: 2308)

(3) جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں سود ظاہر ہوگا وہ تو رعب میں گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)

(4) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں کی عرض کی: زنا حرام ہے۔اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام فرمایا ہے اور قیامت تک حرام رہے گا۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں سے زنا کرنا اپنے پڑوس کی بیوی سے زنا کرنے سے ہلکا ہے۔( مسند امام احمد،9/ 1226، حدیث: 23915)

زنا کرنے والے پر جو قرآن پاک میں حد ارشاد فرمائی ہے، وہ واجب ہو جائے گی۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۪-وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِۚ-وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۲) (پ 18، النور: 2)

ترجمہ: جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو۔

(1)اس آیت میں زنا کی حد اور حکام سے فرمایا جس مرد یا عورت سے زنا سرزد ہو جائے تو سو کوڑے لگاؤ۔

(2) حکام کو چاہیے کہ اس پر عمل کریں تاکہ زنا کی روک تھام ہو سکے۔ اگر حکام اس پر عمل کریں گے تو یہ گناہ کم ہو جائے گا۔

احادیث میں بھی مسلم حکمرانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جن جرائم پر سزا مقرر کی گئی ہیں انہیں سختی سے نافذ کریں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی حدود قریب و بعید میں قائم کرو اور اللہ پاک کے حکم بجا لانے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت تمہیں نہ ڈرائے۔(ابن ماجہ،3/ 217، حدیث: 3540)

اللہ پاک ہمیں اس قبیح فعل سے محفوظ رکھے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر ہو۔آمین۔