بدکاری
ایک بد ترین گناہ ہے،جسے اللہ پاک نے سخت نا پسند فرمایا ہے۔اس کی مذمت کے بارے
میں کئی آیات اور احادیث بیان کی گئی ہیں،جن میں اس گناہ سے بچنے کاحکم دیا گیا
ہے۔بدکاری کی ایک صورت زنا بھی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشادفرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ
کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔
حکم:بدکاری حرام اور کبیرہ گناہ
ہے۔اس لیے ہر مسلمان کو اس سے بچنا چاہیے۔
احادیثِ مبارکہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے، حضورِ اقدس ﷺ
نے ارشاد فرمایا: جب بندہ زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان
کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تواُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی،4/283،حدیث:2634)
حضرت
مقداد بن اسود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں، نبیٔ کریم ﷺ نے اپنے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان سے
ارشاد فرمایا زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے، اللہ
پاک اور اس کے رسول ﷺنے اُسے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا۔ رسولُ اللہ
ﷺنے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا
کرنے (کے گناہ) سے ہلکا ہے۔(مسند امام حمد، 9/226، حدیث: 23915)
حضرت
عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس
بستی میں زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو اُنہوں نے اپنے لیے اللہ پاک کے عذاب کو حلال
کرلیا۔ (مستدرک للحاکم، 2/339، حدیث:2308)
بدکاری کےا سباب: خواہشات کی پیروی بعض اوقات
انسان کو بدکاری کی طرف لے جاتی ہے۔اسی طرح لاعلمی، نظر کی بے حیائی،خوفِ خدا کی
کمی،فکر آخرت کانہ ہونا،دل کا یاد الہی سے خالی ہونا وغیرہ انسان کو اس بُرے فعل
کی طرف لے جاتے ہیں۔
بدکاری کا علاج: نفسانی خواہشات سے بچنا، آنکھوں
کا قفل مدینہ،دل میں خوفِ خدا کا ہونا، دل میں آخرت کی فکر ہونا،دل میں یاد الہی
کا غلبہ،علمِ دین سے محبت کرنا،بُری صحبت سے بچنا، یہ سب بدکاری کے علاج ہیں۔ان پر
عمل بدکاری کے بچنے میں معاون ومددگار ہے۔
دعا: اللہ پاک ہمیں بدکاری سے محفوظ
فرمائے اور اللہ پاک ہمیں اپنی اطاعت و خوشنودی والے کام کرنے کی توفیق عطا فرما
ئے۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ۔