دینِ اسلام ایک ایسا دین ہے جو ہر کسی کے حقوق کا خیال رکھتا ہے چاہے وہ انسان ہو یا جانور۔ اور دینِ اسلام ہر اس چیز سے روکتا ہے جس سے دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہو ۔اس میں بہت سی چیزیں آجاتی ہیں:۔ ظلم، جھوٹ، غیبت تکبر و غیرہ ۔  ان میں سے ایک برائی بدگمانی بھی ہے جو کہ آج کل ہمارے معاشرے میں پہاڑ کی کی طرح مضبوط ہو گئی ہے اور درخت کی جڑوں کی طرح پھیلتی ہی جارہی ہے۔ بچہ سے لے کر بوڑھا ہر کوئی اس برائی میں ہیں۔ قراٰنِ پاک اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت اور اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ الله پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )

آیت کے اس حصے میں اللہ پاک نے اپنے مومن بندوں کو بہت زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا کیونکہ بعض گمان ایسے ہیں جو محض گناہ ہیں لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت سے بچا جائے۔( ابن کثیر ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 12 ، 7 / 352)

امام فخر الدین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : (یہاں آیت میں گمان کرنے سے بچنے کا حکم دیا گیا) کیونکہ گمان ایک دوسرے کو عیب لگانے کا سبب ہے ،اس پر قبیح افعال صادر ہونے کا مدار ہے اور اسی سے خفیہ دشمن ظاہر ہوتا ہے اور کہنے والا جب ان اُمور سے یقینی طور پر واقف ہو گا تو وہ ا س بات پر بہت کم یقین کرے گا کہ کسی میں عیب ہے تاکہ اسے عیب لگائے ،کیونکہ کبھی فعل بظاہر قبیح ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا اس لئے کہ ممکن ہے کرنے والا اسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا غلطی پر ہو۔( تفسیرکبیر ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 12 ، 10 / 110)

بد گمانی کی تعریف : بد گُمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے بُرے ہونے کا دل میں اعتقادِ جازم ( یعنی یقین) کرنا۔ (فیض القدیر، 3/122،تحت الحدیث:2901 وغیرہ)

حدیثِ اول: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

حدیثِ ثانی: حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً ہے کہ: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)

حدیثِ ثالث : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: بد گُمانی سے بچو بیشک بد گُمانی بدترین جھوٹ ہے ۔ (صحیح البخاری،3/446، حدیث: 5143)

بد گمانی بہت بری چیز ہے۔ اکثر طور پر نعت شریف یا بیان و غیره سن کر کسی کو روتا دیکھا تو اس کے بارے میں یہ خیال جما لینا کہ یہ لوگوں کو دکھانے کے لئے رورہا ہے۔ الامان والحفیظ ۔اللہ پاک ہم سب کو اس بری بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین