الحمدلله لا شريك له والصلاة والسلام على اشرف العالمين خاتم النبيين و على اله و اصحابه و ازواجه و بلده  اما بعد فأعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم قال الله تعالى في شان حبيبه اكمل مخبرا و أمرا إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلَٰٓئِكَتَهُۥ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِىِّ ۚ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ صَلُّواْ عَلَيْهِ وَسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وازواجہ وبارک وسلم

مدینہ پاک کے فضائل و مناقب کو احاطہ بیان میں لانا ممکن نہیں بہت سے فضائل ہیں۔اس شہرِ مدینہ منور کو پہلے پثرِب کہا جاتا تھا لیکن خاتم المعصومین، خاتم المرسلین، خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد کہ بعد سے اس کو طیبہ اور مدینہ کہا گیا۔

شرعی مسئلہ: ہجرت سے پیشتر لوگ یثرب کہتے تھے مگر اس نام سے پکارنا جائز نہیں کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی، بعض شاعر اپنے اشعار میں مدینہ طیبہ کو یثرب لکھا کرتے ہیں انہیں اس سے احتراز لازم اور ایسے شعرکو پڑھیں تو اس لفظ کی جگہ طیبہ پڑھیں کہ یہ نام حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رکھا ہے، بلکہ صحیح مسلم شریف میں ہے، کہ اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔

مدینہ منورہ دارِ ہجرت ہے، مہاجرین اور انصار کا سنگم ہے، یہ دار الجہاد ہے کیونکہ یہاں سے ہی جہادی لشکر روانہ ہوتے تھے، اسی شہر سے غزوات اور سرایا ت کیلئے فوجی مہمیں روانہ ہوتی تھیں، جس کے نتیجے میں علاقے فتح ہوئے، دین اسلام پھیلا اور پھولا، شرک اور مشرکوں کی بیخ کنی ممکن ہوئی۔ مزید یہ کہ مال غنیمت، جو کہ فتح میں حاصل ہوتے اس شہر میں لائے جاتے تھے۔ یہی ہے وہ شہر ہے جو اسلام کا ایسا قلعہ بنا اور دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی قائم ہوئی اور یہی قلعہ دارالخلافہ بنا اور اسی شہر میں احکام پر مشتمل آیات اور شرعی آداب نازل ہوئے، نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جس وقت مکہ فتح کیا، تو مکہ میں نہیں ٹھہرے بلکہ دارِ ہجرت مدینہ واپس آ گئے اور اپنی تمام ظاہری طور پر پردہ فرمانے تک کی زندگی مبارک یہیں پر رہے اور اسی شہر میں میرے آقا و مولا، سید المعصومین، سید المرسلین ،سید النبیین، شافع روز جزا، دافع جملہ بلا، ماہ خوباں، رب جلیل کے محبوب، دانائے غیوب ،منزہ عن العیوب، رب العالمین کے پیارے، امت کے سہارے، ہم گناہ گاروں کے سہارے، نبی رحمت ،رسول اکرم، جان کائینات، جان جہان کائینات، مرکز کائینات، نور کائینات، اصل کائینات، رحمت کائینات، راحت کائینات، باعث وجہ تخلیق کائینات، جناب محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا روضہ اقدس بھی اس شہر مدینہ منورہ زیدہ شرفه و تعظيما میں ہے۔ مزید اس کہ فضائل و مناقب بذریعہ احادیث طیبہ قارئین کی نظر کر رہا ہوں۔ لیکن اس سے پہلے عرض ہے کہ اگر اس تحریر میں کوئی بھلائی دیکھیں تو رب جلیل القدر کی عطا کردہ توفیق پر محمول فرمائیں اور اگر خطا دیکھیں تو طالب علم سمجھ کر معاف فرما کر میری اصلاح فرمائیں۔

احادیث طیبہ قارئین کی نظر کرتا ہوں: حدیث 1: صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (سب پر غالِب آئے گی) لوگ اسے ’’یَثرِب ‘‘ کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، (یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹّی لوہے کے مَیل کو۔(صحیح البخاری،1/617، حدیث:1871)

حدیث 2: صحیح مسلم میں اُم المؤ منین صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:یا اللہ ! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنادے جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے بلکہ اس سے زیادہ اور اُس کی آب و ہوا کو ہمارے لئے درست فرما دے اور اُس کے صاع و مُد میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخار کو منتقل کرکے جحفہ میں بھیج دے۔( صحیح مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ ۔۔۔ إلخ، ص715،حدیث : 1376) (یہ دعا اُس وقت کی تھی، جب ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائے اور یہاں کی آب و ہوا صحابہ کرام کو ناموافق ہوئی کہ پیشتر یہاں وبائی بیماریاں بکثرت ہوتیں ) یہ مضمون کہ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے مدینہ طیبہ کے واسطے دعا کی کہ مکہ سے دوچند یہاں برکتیں ہوں۔ مولیٰ علی و ابو سعید و انس رضی اللہ عنہم سے مروی۔( صحیح مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ ۔۔۔ إلخ،ص713، حدیث : 1374)

حدیث 3: صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مدینہ کے راستوں پر فرشتے (پہرا دیتے ہیں ) اس میں نہ دجال آئے، نہ طاعون۔(’’ صحیح مسلم ‘‘ ، کتاب الحج، باب صیانۃ المدینۃ من دخول الطاعون ۔۔۔ إلخ،حدیث : 1379 ، ص 716)حدیث 4: صحیحین میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مکۂ مکرمہ اور مدينَۂ منورہ کے علاوہ کوئی شہر ايسا نہيں جسے عنقريب دَجّال روندتا ہوا نہ جائے، جبکہ ان شہروں کے ہر راستے پر فرشتے صفیں باندھے پہرہ دے رہے ہوں گے،لہٰذا وہ ایک دلدلی زمین پر پڑاؤ ڈالے گا پھر شہرِ مدینہ3 مرتبہ لرزے گا تو اللہ پاک کفر و نفاق میں مبتلا ہر شخص کو وہاں سے نکال دے گا۔(بخاری،کتاب فضائل المدینۃ،باب لاید خل الدجال المدینۃ ،1/ 619،حدیث: 1881)

حدیث 5: طبرانی عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یا اللہ !جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انھیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے، نہ نفل۔ ( المعجم الأوسط للطبرانی، 2/379،حدیث : 3589)اسی کی مثل نسائی و طبرانی نے سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔حدیث 6: صحیح مسلم وغیرہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ لوگ جب شروع شروع پھل دیکھتے، اُسے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر لاتے، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسے لے کر یہ کہتے: الٰہی! تو ہمارے لئے ہماری کھجوروں میں برکت دے اور ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت کر اور ہمارے صاع و مُد میں برکت کر، یا اللہ ! بے شک ابراہیم تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی ہیں اور بے شک میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔ انھوں نے مکہ کے لئےتجھ سے دُعا کی اور میں مدینہ کے لئے تجھ سے دُعا کرتا ہوں ، اُسی کی مثل جس کی دعا مکہ کے لئے انھوں نے کی اور اتنی ہی اور (یعنی مدینہ کی برکتیں مکہ سے دوچند ہوں )۔ پھر جو چھوٹا بچہ سا منے ہوتا اُسے بلا کر وہ کھجور عطا فرما دیتے۔(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ۔۔۔ إلخ، حدیث : 1373 ، ص 713)

حدیث 7: صحیح مسلم و تر مذی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ مدینہ کی تکلیف و شدّت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے، قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔(صحیح مسلم ، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ ۔۔۔ إلخ، حدیث : 1378 ، ص 716)حدیث 8: بیہقی نے حاطب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی تو گویا اُس نے میری زندگی میں زیارت کی اور جو حرمین میں مرے گا، قیامت کے دن امن والوں میں اُٹھے گا۔( شعب الإیمان، باب فی المناسک، فضل الحج و العمرۃ، 3/488،حدیث : 4151)

حدیث 9: صحیح بخاری و مسلم میں سعد رضی عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں :جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا، ایسا گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، 1 / 618 ،حدیث: 1877) حدیث 10: ترمذی و ابن ماجہ و ابن حبان و بیہقی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت فرماؤں گا۔ (جامع الترمذی، ابواب المناقب باب ماجاء فی فضل المدینۃ،5/483، حدیث:3943)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارے سینوں کو عشق مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور سے مشرف فرمائے اس کے صدقے ہمیں مدینہ منورہ سے محبت اور اس کا ادب کرنا نصیب کرے۔ اے میرے رب جلیل ہمیں مدینہ منورہ کی محبت میں رونے والی آنکھیں عطا فرما اور محبتِ مدینہ منورہ میں تڑپنے والا دل عطا فرما دے۔ اے کاش! اے کاش! اے کاش کہ مجھ گناہگار کو بھی مدینے پاک کی حاضری اس انداز میں نصیب ہو کہ جب شہر اقدس تک پہنچوں، جلال و جمال محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تصور میں غرق ہو جاؤں اور دروازۂ شہر میں داخل ہوتے وقت پہلے دہنا قدم رکھوں اور پڑھوں : بِسْمِ اللہِ مَاشَآءَ اللہ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَارْزُقْنِیْ مِنْ زِیَارَۃِ رَسُوْلِکَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا رَزَقْتَ اَوْلِیَآ ئَکَ وَاَھْلَ طَاعَـتِکَ وَانْقِذْنِیْ مِنَ النَّارِ وَاغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ یَا خَیْرَ مَسْئوْلٍ

جب حرم مدینہ آئے تو میں پیادہ ہو لوں، روتے، سر جھکائے، آنکھیں نیچی کیے، درود شریف کی کثرت کروں اور اے رب جلیل تو توفیق عطا فرمائے تو ننگے پاؤں چلوں۔ آستانۂ اقدس کی طرف نہایت خشوع و خضو ع سے متوجہ ہوکر رو پڑوں اگر تیری توفیق ہو اور اگر رونا نہ آئے تو رونے کا مونھ بناؤں اور دل کو بزور رونے پر لاؤں اس کی توفیق عطا فرما دے اوراس وقت جو ادب و تعظیم فرض ہے ہر مسلمان کا دل جانتا ہے آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں ، دل سب خیالِ غیر سے پاک کروں، جب روضۂ انور پر نگاہ پڑے، درود سلام کی خوب کثرت کروں اور نگاہ پڑتے اپنی سنگ دلی سے رسولﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف التجا کرو يا رسول الله انظر حالنا بس یہ التجاء کرتے اور آنکھوں سے مودت میں آنسو بہاتے مجھے موت آجائے،میری اس دنیا میں جنت البقیع میں تدفین ہو اور کل قیامت میں مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ واٰلہ واصحابہ وازواجہ وبارک وسلم کا پڑوس نصیب ہوجائے ۔اے میرے رب جلیل القدر اس تحریر لکھنے والے کے والدین عزیز واقارب اور جس نے بھی معاونت کی اس کارخیر میں اور اس تحریر پڑھنے والے تمام احباب کے حق میں یہ دعا بدرجہ اولیٰ قبول فرما اور انکے والدین و عزیز و اقارب کے حق میں بھی قبول فرما۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔