مدینہ کا لفظ یا
تو دین سے بنا ہے،جس کے معانی ہیں اطاعت یعنی فرمانبرداری کرنا، اس کو مدینہ اس
لئے کہتے ہیں کہ یہ اطاعتِ الہٰی کا سب سے پہلا مرکز ہے یا یہ لفظ مدن سے بنا ہے
اور مدن کے معنی اجتماعیت کے ہیں اور مدینہ مسلمانوں کی اجتماعیت یعنی جمع ہونے کا
سب سے پہلا مرکز ہے، مدینہ کا معنی خوشبو ،پاکیزگی اور راحت کے ساتھ رہنے کے ہیں۔(شرح
صحیح مسلم، کتاب الحج، صفحہ 738)
الحمدللہ ذکرِ
مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحت و سکون ہے، مدینہ کے عاشق ان کی جدائی میں
تڑپتے ہیں، زیارت کے لئے منتظر رہتے ہیں اور کیوں نہ ہو مدینہ تو وہ ہے، جہاں بے
سہاروں کی بگڑیاں بنتیں، حاجت مندوں کی حاجت پوری ہوتیں، غم کے ماروں کی غمخواری
ہوتی ہے، وہ بابرکت مقام ہے، جہاں جھولیاں بھر تی، دل کی مرادیں پوری ہوتی،الغرض
جانے والا اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہے، قرآن میں بھی مدینہ کا ذکر متعدد مقامات
پر ہوا۔چنانچہ پارہ 18، سورۃ المنافقون آیت نمبر 8 میں ہے:یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ
اِلَى الْمَدِیْنَۃ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ ؕ وَ لِلّٰهِ الْعِزَّۃ
وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ0۔ترجمہ:کہتے
ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے، وہ اس میں نکال دے گا،اسے جو
نہایت ذلت والا ہے اور عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے،مگر
منافقوں کو خبر نہیں۔
(بحوالہ
پارہ28، منافقون: 8، عاشقان رسول کی حکایات، صفحہ 283)
یہاں ہم دس
احادیثِ طیبہ شہرِ نبی کے متعلق عرض کرتی ہیں:
1۔دو جہاں کے
تاجور،سلطانِ بحروبر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا
فرمان ہے:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھتا ہو، مدینے ہی میں مرے کہ
جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(عاشقان
رسول کی حکایات، صفحہ 249)
2۔سرکارِ والا
تبار،ہم بے کسوں کے مددگار صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکاارشادہے:
تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے میں مرے کہ جو مدینے میں
مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(عاشقان
رسول کی حکایات، صفحہ 250)
3۔ نبیِّ مکرم،نورِ
مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا
فرمانِ معظم ہے:اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے،مدینے میں نہ کوئی
گھاٹی ہے، نہ کوئی راستہ، مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(عاشقان
رسول کی حکایات، صفحہ 250)
ملائک
لگاتے ہیں آنکھوں سے اپنی شب
و روز خا کِ مزارِ مدینہ
4۔نبیِّ پاک صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکا
فرمانِ با قرینہ ہے:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر
میں قیامت کے دن اس کا شفیع(شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔(عاشقان رسول کی حکایات، صفحہ
254)
5۔نور کے پیکر،تمام
نبیوں کے سرور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا
فرمانِ روح پرو رہے:اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں
یہاں سے چرا گاہوں کی طرف نکل جائیں گے، پھر جب وہ خوشحالی پا لیں گے تو لوٹ کر آئیں
گے، پھر جب وہ خوشخالی پا لیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کو اس کشادگی کی
طرف جانے پر آمادہ کریں گے، حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔
6۔سہیل بن حنیف
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ
کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا:یہ حرم ہے اور امن کی جگہ ہے۔(شرح
صحیح مسلم، کتاب الحج، صفحہ726، حدیث3237)
7۔حضرت جابر
بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔(شرح صحیح
مسلم، کتاب الحج، صفحہ 734)
8۔حضرت زید بن
ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:مدینہ طیبہ ہے اور میل کچیل کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح چاندی کے میل کو
آگ دور کرتی ہے۔
(شرح
صحیح مسلم، کتاب الحج، صفحہ 734)
9۔حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ بیان فرماتے
ہیں، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:جو اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کاارادہ کرے،اللہ پاک اس کو اس طرح گھلا دےگا، جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔
(شرح
صحیح مسلم، صفحہ 739،حدیث3255)
10۔حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:مجھے اس بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا جو تمام بستیوں کو کھا جاتی ہے،
لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے اور وہ بُرے لوگوں کو اس طرح دور کرتا ہے،
جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کرتی ہے۔(شرح صحیح
مسلم، کتاب الحج، صفحہ 733،حدیث3249)
اس روایت میں مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کی
ممانعت کی گئی ہے، اس لئے کہ یہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے یا اس لئے کہ یہ ثرَبٌ سے
بنا ہے، جس کے معنی ہیں ہلاکت اور فساد اور تثریب بمعنی سرزنش اور ملامت یا اس وجہ
سے کی یثرب کسی بت یا کسی جابر و سرکش بندے کا نام تھا۔امام بخاری رحمۃ
اللہ علیہ
نے اپنی تاریخ میں حدیث لائے ہیں کہ جو ایک مرتبہ یثرب کہہ دے تو اسے(کفارےمیں) دس
مرتبہ مدینہ کہنا چاہئے۔
(شرح
صحیح مسلم، کتاب الحج، صفحہ 253)
فتاویٰ رضویہ،
جلد 21، صفحہ116 پر ہے:مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے
والا گنہگار۔
رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو مدینہ کویثرب کہے، اس پر توبہ واجب
ہے، مدینہ طابہ ہے، مدینہ طابہ ہے۔
علامہ سعید
احمد کاظمی قدس سرہ العزیز
نے
فرمایا:مدینہ کو یثرب اس وجہ سے کہتے تھے جو مدینہ جاتا، بیمار ہو جاتا اور لوگ اس
کو ملامت کرتے، تو گیا کیوں تھا، جو بیمار ہو گیا، رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی ہجرت کے بعد جو جگہ دار الوباء تھی، وہ دارالشفا
بن گئی، وہاں صحت مند جاتے تو بیمار ہوجاتے، اب بیمار جاتے تو صحتیابی پاتے، پہلے لوگ جانے پر کوستے، ملامت کرتے،اب کوئی
حج کے لئے جائے مدینہ نہ جائے تو ملامت کرتے ہیں کہ کیوں نہ گیا۔(شرح
صحیح مسلم، کتاب الحج، صفحہ 738،سطر4)
امیر ِاہلِ سنت
دامت برکاتہمُ العالیہ لکھتے ہیں :
مدینہ
اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ
رہتے ہیں میرے آقا میرے دلبر مدینے میں
(
وسائل بخشش، صفحہ 204)
پھر کیوں نہ
ہو مدینہ کو یاد کریں، کیوں نہ مدینہ سے محبت کریں، بے قرار ہے وہ دل جس میں یادِ
مدینہ نہیں، آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم دل و جان سے مدینہ
پر قربان رہیں، اس کا ذکرِ خیر کریں، اس کی
حاضری کے لئے دعائیں مانگیں، یقین جانئے دنیا کی محبت ایک طرف اور مدینہ کی محبت ایک
طرف، اگر آپ کو مدینہ کا نام سن کر دل میں ہلچل نہیں ہوتی تو آپ کے اندر خرابی ہے،
اس کا علاج کیجئے، نعتیں سنئے، مدینے کا ذکر کرنے والیوں، اس کے لئے تڑپنے والیوں،
رونے والیوں کی صحبت اختیار کیجئے، ان شاءاللہ آپ بھی مدینہ مدینہ کرنے والے بن
جائیں گی۔اللہ پاک ہمیں آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قدموں
میں مدینہ منورہ میں موت نصیب فرمائے۔آمین