مدینہ منورہ  جیسے ہادیِ سُبُل،مولائے کل صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا دارالہجرت اور پھر روضۃ الرسول بننے کا اعزاز حاصل ہے، جس کی خاکِ پاک کو خود پر بجا طور پر خود پر فخر کرنے کا حق حاصل ہے کہ سرور ِکائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس شہر کو اپنی دائمی سکونت کے لئے منتخب فرمایا، اس شہرِ مدینہ کے دلربا تذکرے سے ایمان میں تازگی، روح کو فرحت و مسرت، دل کو شادمانی نصیب ہوتی ہے۔آئیے !شہرِ مدینہ کے فضائل، مدینہ کو مدینہ کہنے کی وجہ اور دیگر تذکرہ ٔمدینہ کرتی ہیں اور اپنے دل کو ذکرِ مدینہ سے منور کرتی ہیں۔

یثرب سے مدینہ تک:

اس پاکیزہ شہر کا قدیم نام یثرب تھا، پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مبارک قدموں کی برکت سے یہ شہرِ مدینہ کے نام سے موسوم ہوا، مدینہ سے یثرب کیسے ہوا؟ اس کے لئے ہم یثرب کے معنی اور علما کے اقوال جانتی ہیں:

یثرب بنا ہے ثُرابٌ سے یا تَثْرِیْبٌ سے، جس کے معنی ہیں ملامت کرنا، گناہ پر عار دلانا، لعن طعن کرنا، امام زین المراغی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:یثرب دراصل اسی شہر کے غربی حصے میں ایک بستی کا نام تھا، یہی نام پوری بستی کیلئے استعمال ہونے لگا، چونکہ اس شہر کو صفحہ ہستی پر آباد کرنے والے کا نام اولادِ نوح میں سے یثرب تھا، تو اسی کی مناسبت سے یہ یثرب کہا جانے لگا، جب رحمت ِعالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماس شہر میں رونق افروز ہوئے تو اسے مدینۃالنبی کہا جانے لگا اور پھر مختصر طور پر مدینہ کہا جانے لگا۔

امام شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:یثرب تثریب سے ہے، جس کے معنی توبیخ و ملامت ہےیا ثرب ہے،جس کے معنی فساد کے ہیں، چونکہ دونوں نام قبیح تھے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عادتِ مبارکہ برے ناموں کو اچھے ناموں سے بدل دیتے تھے، اسی وجہ سے آپ نے یثرب کی جگہ اس کا نام طابہ رکھا۔ پھر جب اس مبارک شہر کا نام طابہ اور مدینہ قرار پایا تو اس مبارک شہر کو یثرب کہنا اور اس کے قدیم نام سے پکارنا بھی ممنوع قرار پایا اور سرکار ِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اب جو مدینہ کو یثرب کہے اس کے نامہ اعمال میں ایک گناہ لکھا جائے گا۔آئیے !اب مدینہ منورہ کے فضائل جانتی ہیں:

1۔نامِ مدینہ خود اللہ پاک نے عطا فرمایا۔ربّ کریم نے نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مبارک شہر کا نام مدینہ خود رکھا، قرآنِ پاک میں ہے:ما کان لاھل المدینہ۔ نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اللہ پاک نے مجھے حکم دیا کہ میں اس شہر کا نام مدینہ طیبہ رکھوں۔(مسند ابی داؤد طہالسی، جلد2، صفحہ 204)

2۔محبتِ مدینہ کی دعا:جب مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو انہیں شہرِ مکہ فطری طور پر محبوب تھا کہ وہ ان کا وطن تھا تو پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے محبتِ مدینہ کی دعا فرمائی، پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:یا اللہ پاک! مدینہ کی محبت ہمارے دلوں میں جاگزیں فرما، جیسے ہمیں مکہ محبوب تھا یا اس سے بھی زیادہ مدینہ کی محبت عطا فرما۔(بخاری شریف، جلد 1، صفحہ 253)

3۔مدینہ میں فوت ہونے کے لئے شفاعتِ مصطفٰے کی بشارت ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو مدینے میں مرنے کی طاقت رکھے تو اسے چاہئے، مدینے ہی میں مرے کہ بروزِ قیامت میری شفاعت و شہادت با سعادت سے مشرف ہو گا۔(مسلم شریف،ج1، 444)

4۔مدینے کے باشندوں سے بد خواہی پر وعید:جو اہلیانِ مدینہ سے بدخواہی کرے گا، وہ ایسا گھل جائے گا، جیسے نمک گھل جاتا ہے۔

5۔خاکِ مدینہ خاکِ شفا ہے:ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: تاجدارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمان الفاظ کے ساتھ بیمار کو جھاڑ پھونک فرماتے تھے، اللہ پاک کے نام کے ساتھ ہمارے ملک کی مٹی ہمارے بعض کے تھوک کے ساتھ ہمارا مریض اللہ پاک کے حکم سے شفایاب ہو جائے گا۔

6،7۔مدینہ کے پھلوں اور رزق میں برکت کی دعا:نبیِّ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:یااللہ پاک!تو ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما، ہمارے شہروں کو بابرکت بنا اور ہمارے صاع اور مد میں بھی برکت عطا فرما۔ ایک اور جگہ فرمایا:اے اللہ پاک! ہمیں اطمینانِ قلب اور عمدہ رزق عطا فرما۔

8۔ایمان کا پہلا اور آخری مرکز مدینہ:نبیِّ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:ایمان بالآخر سمٹ کر مدینہ منورہ میں رہ جائے گا، جیسا کہ سانپ اپنے بل سمٹ آتا ہے۔

9۔مدینے میں تدفین کی آرزوئے مصطفٰے:حضرت یحییٰ بن سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :ایک مرتبہ جنت البقیع میں قبر کھودی جارہی تھی،جہاں سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبھی تشریف فرما تھے، اسی دوران ایک صاحب آئے اور کہنے لگے:مومن کے لئے یہ کیسی بری جگہ ہے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو ان کی بات ناگوار گزری، آپ نے فرمایا:تم نے کیسی بری بات کہی ہے، وہ صاحب کہنے لگے:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کی موت اپنے گھر میں ہوئی ہے، انہیں اللہ پاک کی راہ میں شہید ہونا چاہئے تھا، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:شہادت کے برابر تو کوئی چیز نہیں ہو سکتی، لیکن ساری روئے زمین پر کوئی ایسی جگہ نہیں، جہاں مجھے اپنی قبر بنانا پسند ہو،سوا اس جگہ کے اور یہ الفاظ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تین بار ارشاد فرمائے۔

(مؤطا امام مالک، جلد 2، صفحہ 550)

10۔ہزار نمازوں سے افضل نماز:مدینہ منورہ میں مسجدِ نبوی میں ایک نماز عام مساجد میں ہزاروں نمازوں سے افضل ہے،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: میری امت میں ایک نماز باقی مساجد کے مقابلے میں ہزاروں نماز سے افضل ہے، مگر مسجد حرام میں ایک نماز میری مسجد سے بھی ایک سو گناہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔

پیاری پیاری بہنوں! حاصل یہ ہےکہ اس متبرک اور مقدس شہر کے بے شمار فضائل ہیں، جن کا احاطہ ہمارا علم، قلم اور وقت نہیں کر سکتے، بس ہر مومن و مومنہ کے دل کی آرزو، آنکھوں کی ٹھنڈک مدینہ منورہ ہونی چاہئے کہ ایک عاشقِ رسول مدینے میں مرنے کی، مدینے میں جینے کی دعا کرتا ہے، اسی آرزو میں شب و روز گزرتے ہیں :

اسی آرزو میں گزرتے رہیں دن کہ پہنچے دیارِ نبی ہم بھی لیکن

نہیں ہے کوئی انتظام ان سے کہنا مدینے کے زائر سلام ان سے کہنا

پیاری اسلامی بہنو! حقیقی محبتِ مدینہ اور مدینے والے مدنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے والی بن جائیں،نہ صرف خود سنتوں کی پیکر ہوں، بلکہ سنتوں پر عمل کی دعوت عام کرنے والی بن جائیں۔ربّ کریم حقیقی اور سچی عاشقہِ مدینہ بنائے اور مدینے والے کا عشق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم