1۔دوجہاں کے تاجور، سلطانِ بحر و بر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان عبرت نشان ہے :تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھتا ہو، مدینے ہی میں مرے کہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب الایمان، جلد 3، صفحہ 497، حدیث1482)

زمیں تھوڑی سی دیدے بہرِ مدفن اپنے کوچے میں لگادے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے(ذوق نعت)

حدیث کی تشریح:

اس حدیثِ پاک میں پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرما رہے ہیں کہ اگر تم سے ہوسکے کہ مدینہ میں مرو، یعنی کوئی مرضِ وفات میں مبتلا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے آبائی وطن نہ لوٹے یا دفن کرنے والے آبائی وطن نہ لے آئیں، بلکہ اسے مدینے میں ہی دفن کریں کہ جو مدینہ میں مرے میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماس کی شفاعت فرمائیں گے اور ربّ کریم سے اس کے گناہ بھی بخشوائیں گے۔

مال و دولت کی دعا ہم نہ خدا کرتی ہیں ہم تو مرنے کی مدینے میں دعا کرتی ہیں (وسائل بخشش)

2۔دجال مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکتا:سرکارِ والا تبار،ہم بے کسوں کے مددگار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ معظم ہے:اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے، ناراستہ، مگر اس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(مسلم،ص 714، حدیث1274)

حدیث کی تشریح:

امام نووی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس روایت میں مدینہ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے زمانہ مبارک میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی، کثرت سے فرشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عزت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔

(شرح صحیح مسلم للنووی، جلد 5، جز 9، صفحہ 148)

ملائک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی شب و روز خاکِ مزارِ مدینہ(ذوق نعت)

3۔مدینہ لوگوں کو پاک صاف کرے گا :رسول ِنذیر،سراج منیر، محبوبِ ربِّ قدیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ دلپذیر ہے:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی، جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 617، حدیث 1881)

4۔مدینہ کی سختیوں پر صبر کرنا:شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ با قرینہ ہے:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع(شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔

تجھ سے کیا کیا اے مرے طیبہ کے چاند ظلمت ِ غم کی شکایت کیجئے

تشریح حدیث:

حکیم الامت، مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:یعنی شفاعت خصوصی، حق یہ ہے کہ یہ وعدہ ساری امت کے لئے ہے کہ مدینے میں مرنے والے حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی اس شفاعت کے مستحق ہیں۔

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے

5۔مدینہ منورہ بہتر ہے:نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ روح پرور ہے:اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں چراگاہوں کی طرف نکل جائیں گے، پھر جب وہ خوشحالی پالیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کواس کشادگی کی طرف جانے پر آمادہ کریں گے، حالانکہ وہ جان لیں تو مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، جلد 5، صفحہ 106، حدیث1468)

ان کے در کی بھیک چھوڑیں سروری کے واسطے سے ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں (ذوق نعت)

6۔امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :مدینے میں چیزوں کے نرخ یعنی بھاؤ بڑھ گئے اور حالات سخت ہوگئے تو سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:صبر کرو اور خوش ہو جاؤ کہ میں نے تمہارے صاع اور مد کو بابرکت کر دیا اور اکٹھے ہوکر کھایا کرو، کیونکہ ایک کا کھانا دو کو اور دو کا کھانا چار کو اور چار کھانا 5 اور 6 کو کفایت کرتا ہے اور بے شک برکت جماعت میں ہے تو جس نے مدینہ کی تنگدستی اور سختی پر صبر کیا، میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا اور جو اس کے حالات سے منہ پھیر کر نکلا، اللہ پاک اس سے بہتر لوگوں کو اس میں بسا دے گا اور جس نے اہلِ مدینہ سے برائی کرنے کا ارادہ کیا، اللہ پاک اسے اس طرح پگھلا دے گا، جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔(مجمع الزوائد، جلد 3، صفحہ 651، حدیث)

شہ ِکونین نے جب صدقہ بانٹا زمانے بھر کو دم میں کر دیا خوش (ذوق نعت)

7۔ رسولِ اکرم،نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو بالقصد(ارادتاً) میری زیارت کو آیا، وہ قیامت کے دن میری محافظت(حفاظت) میں رہے گا اور جو مدینہ میں سکونت یعنی رہائش اختیار کرے گا اور مدینے کی تکلیف پر صبر کرے گا، تو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا اور جو حرمین(مکہ مدینہ) میں سے کسی ایک میں مرے، اللہ پاک اس کو اس حال میں قبر سے اٹھائے گا کہ وہ قیامت کے خوف سے امن میں رہے گا۔(مشکاۃ المصابیح، جلد 1، صفحہ1012، حدیث2755)

غم ِمصطفٰے جس کے سینے میں ہے گو کہیں بھی رہے وہ مدینے میں ہے

8۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،جب رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمغزوۂ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے تو تبوک میں شامل ہو جانے سے رہ جانے والے صحابہ کرام علیہم الرضوان ملے، انہوں نے خاک اڑائی، ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔(جامع الاصول للجزری، جلد 9، صفحہ297، حدیث6962)

خاک ِمدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتی ہوتی رہِ مدینہ میرا غبار ہوتا

9۔فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس نے مسجد نبوی میں متواتر چالیس نمازیں ادا کیں، اس کے لئے جہنم اور نفاق سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔(مسند امام احمد، جلد 4، صفحہ 311، حدیث12584)

عطار ہمارا ہے سرِ حشر اسے کاش! دستِ شہِ بطحٰی سے یہی چٹھی ملی ہو

10۔فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:میری اس مسجد(مسجد نبوی) کی ایک نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ، جلد 2، صفحہ 176، حدیث1413)

صد غیرتِ فردوس مدینے کی زمیں ہے باعث ہے یہی اس کا تو اس میں مکیں ہے

مدینہ منورہ کے بارے میں مختصر تمہید، فضیلت و اہمیت:

1۔روئے زمین کا کوئی ایسا شہر نہیں، جس کے اسمائے گرامی یعنی مبارک نام اتنی کثرت سے ہوں،جتنے مدینہ منورہ کے نام ہیں، بعض علما نے سو تک تحریر کئے ہیں۔

2۔مدینہ منورہ ایسا شہر ہے، جس کی محبت اور ہجر و فرقت میں دنیا کے اندر سب سے زیادہ زبانوں اورسب سے زیادہ تعداد میں قصیدے لکھے گئے، لکھے جارہے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے۔

3۔اللہ پاک کے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کی طرف ہجرت کی اور یہیں قیام پذیر رہے۔

4۔جب کوئی مسلمان زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ آتا ہے، تو فرشتے رحمت کے تحفوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔(جذب القلوب:211)

5۔سرکار ِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ منورہ میں مرنے کی ترغیب ارشاد فرمائی۔

یثرب سے مدینہ:

فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صفحہ 119 پر ہے:حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اللمعات شرح المشکوۃ میں فرماتے ہیں:حضرت احمد مختار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے وہاں لوگوں کے رہنے سہنے اور جمع ہونے اور اس شہرسے محبت کی وجہ سے اس کا نام مدینہ رکھا اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اسے یثرب کہنے سے منع فرمایا، اس لئے کہ یہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے، اس لئے کہ یہ ثرَبٌ سے بنا ہے۔

یثرب کا معنی:

یثرب ثرَبٌ سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں :ہلاکت اور فساد اور تثریب بمعنی سرزنش اور ملامت یا اس وجہ سے کہ یثرب کسی بت یا کسی جابر و سرکش بندے کا نام تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں حدیث لائے ہیں کہ جو ایک مرتبہ یثرب کہہ دے تو اسے(کفارےمیں) دس مرتبہ مدینہ کہنا چاہئے۔

قرآن میں یثرب کا نام:

قرآنِ مجید میں جو یٰاَہْلَ یَثْرِبَ(یعنی اے یثرب والو) آیا ہے، وہ دراصل منافقین کا قول ہے کہ یثرب کہہ کر وہ مدینہ منورہ کی توہین کا ارادہ رکھتے تھے۔ دوسری روایت میں ہے : یثرب کہنے والا اللہ پاک سے استغفار(توبہ) کرے اور معافی مانگے اور بعض نے فرمایا: جو مدینہ منورہ کویثرب کہے، اسے سزا دینی چاہئے، حیرت کی بات ہے کہ بعض بڑے لوگوں کی زبان سے اشعار میں لفظ یثرب صادر ہوا ہے اور اللہ پاک خوب جانتا ہے اور عظمت و شان والے کا علم بالکل پختہ اور ہر طرح سے مکمل ہے۔

زندگی کیا ہے مدینہ کے کسی کوچے میں موت موت پاک و ہند کے ظلمت کدے کی زندگی

غمِ مدینہ اور محبتِ مدینہ:

بلا لو ہم غریبوں کو بلا لو یا رسول اللہ پئے شبیر و شبّر فاطمہ حیدر مدینے میں

نہ ہو مایوس دیوانو پکارے جاؤ تم ان کو بلائیں گے تمہیں بھی ایک دن سرور مدینے میں

ہر مسلمان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سرکار ِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مبارک شہر مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں دفن ہو،آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے جلوؤں میں اس کا دم نکلے، قبر میں بھی سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے جلوؤں کا طلبگار رہتا ہے اور حشر میں بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اے کاش! آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماپنے دامنِ رحمت میں چھپا لیں، ایسا تب ہوگا جب ہم ساری زندگی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی سنتوں پر عمل کریں گی، نزع میں تب ہی جلوہِ حبیب نظر آئے گا، جب ساری زندگی حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمپر درود پاک پڑھا ہوگا۔

واقعہ:

ایک بار کسی مرید نے پیر سے کہا :حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی زیارت کا کوئی وظیفہ بتادیں، پیر نے کہا : پہلے تم ایسا کرو کہ دو کلو مچھلی لو اور پکا کر کھا لو، مگر پانی نہیں پینا، صبح میرے پاس آنا، مریض نے ایسے ہی کیا، مچھلی خریدی اور کھا لی، لیکن پانی نہ پیا، رات کو سویا تو نیند کہاں آنی تھی، لیکن جب بمشکل نیند آئی تو خود کو کبھی ندی پر پایا تو کبھی دریا پر پایا،صبح جب پیر کے پاس گیا تو کہا :تم نے ہر جگہ پانی پایا، لہٰذا جب تجھے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی سخت تڑپ ہوگی تو میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبھی کرم فرما دیں گے، جو انسان ہر وقت غمِ مدینہ میں تڑپتا ہے، میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبھی اس پر ضرور کرم فرماتے ہیں،جیسے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے کیا خوب کہا ہے:

فریاد امتی جو کرے حالِ زارمیں ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو

محبتِ مدینہ:

کسی نے بھی کیا خوب کہا ہے: مدینہ جانے کے لئے دولت کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ بات صرف عشق کی ہوتی ہے،جو حقیقی عشقِ مدینہ سے رکھتی ہے، پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبھی اسے ضرور مدینے بلواتے ہیں، بس بات صرف عشق کی ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم کثرت سے درودِ پاک پڑھیں اور ہر وقت زبان پر ذکرِ مدینہ کرتی رہیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی عاشقہِ خیرالوریٰ بنائے، ہمیں ایسا دل عطا فرمائے، جو محبتِ مدینہ سے سرشار ہو، ہمیں ایسی آنکھ عطا فرمائے، جو عشقِ مدینہ میں آنسو بہاتی رہے اور ہمیں پیر و مرشد امیرِ اہلِ سنت بانیِ دعوتِ اسلامی کے ساتھ چل مدینہ کی سعادت عطا فرمائے۔آمین

نا یہ بات مال وزر کی ہے، قسم خدا کی یہ ہے حقیقت جسے بلایا ہے سرکار نے، وہی مدینے کو جا رہے ہیں

مدینہ میرا سینہ ہو میرا سینہ مدینہ ہو مدینہ دل کے اندر ہو دلِ مضطر مدینے میں