سید محمد
مبین رضاعطاری ( جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
یاد رکھیں غصہ
ایک ایسا مذموم فعل ھے کہ شیطان انسان کے ساتھ ایسے کھیلتا ھے جیسا کہ بچے گیند کے
ساتھ کھیلتے ھیں اور غصہ انسان کی زندگی کو ھی نہیں پورے کے پورے خاندان کو اجاڑ
کر رکھ دیتا ھے غصے میں انسان دوسرے کا نقصان کر کے ھی دم لیتا ھے جیسا کہ ۔
1)۔۔حضرتِ سیِّدُنا
ابومسعودانصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتےہیں :میں اپنے غلام کی پٹائی کر رہا
تھاکہ میں نےاپنےپیچھے سےآواز سنی: اےابومسعود تمہیں علم ہونا چاہئے کہ تم اس پر
جتنی قدرت رکھتے ھو اللہ پاک اس سے زیادہ تم پر قدرت رکھتا ھے ‘‘ میں نے پیچھے مُڑ
کر دیکھا تو وہ سید عالم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تھے ۔ میں نےعرض
کی: یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! ھُوَحُرٌّ لِّوَجْہِ اللہ یعنی یہ اللہ پاک کی رضا کے لئے آزاد ہے ۔
سرکارِمدینہ
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’اگر تم یہ نہ کرتے
تو تمہیں دوزخ کی آگ جلاتی ۔ ‘‘ یا فرمایا کہ’’ تمہیں دوزخ کی آگ پہنچتی ۔
‘‘(مسلم ص905،حدیث 35 ۔ 1658 بحوالہ غُصےکا علاج صـ11ناشر مکتبۃ المدینہ کراچی)
2)۔ایک شخص نے
بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں عرض کی یارسولَ
ﷲ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھےوصیّت فرمایئےارشادفرمایا:
’’غُصّہ مت کیا کرو۔‘‘ اس نے باربار یِہی سُوال کیا ۔ جواب یِہی ملا: ’’غُصّہ مت کیا
کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ج4ص131 حدیث 6116) بحوالہ غُصےکاعلاج صـ4ناشرمکتبۃ المدینہ کراچی پاکستان
3)۔۔۔حضرت انس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے’’جو اپنے غصہ میں مجھے یاد
رکھےگا میں اسے اپنے جلال کے وقت یادکروں گا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اسے ہلاک
نہ کروں گا۔ (فردوس الاخبار،باب القاف،2/137، الحدیث: 4476) سورہ آل عمران آیت
نمبر34 تفسیر صراطُ الجنان
4)۔حضرت ابوذر
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم سے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ
کھڑا ہو تو بیٹھ جائے ،اگر اس کا غصہ چلا جائے تو ٹھیک ورنہ اسے چاہئے کہ لیٹ
جائے۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب، 4 / 327، الحدیث: 4783)
(5)…حضرت
عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو
اسے چاہئے کہ خاموش ہو جائے۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن العباس الخ، 1/515،
الحدیث: 2136)
ھمیں یہ بات یادرکھنی
چاھئےکہ غصہ کرنے والے سےغصےکی حالت میں ایسی ایسی باتیں صادر ہو جاتیں ھیں جس پر
اسے غصہ ختم ہونے کے بعد بہت زیادہ ندامت اٹھانی پڑتی ھے، جیسے غصے کی حالت میں شوھر
کا اپنی بیوی کو طلاق دینا ، گالی گلوچ کرنا جس کا نقصان بہت زیادہ ھے،بسا اوقات
تو غصہ کی نحوست کی وجہ سے بسا ھوا گھر غصے کی زد میں آ کر بربادھو جاتا ھے پھر اس
کا تدارک مشکل ھو جاتا ھے شیطان انسان کو طیش دلاتا اور پھرنجانے کیسے ۔کیسے
خطرناک کام کرواتا ھے اگر ھم احادیث کے مطابق عمل کریں تو بچت ھوسکتی ھےجیسا کہ
6)۔۔۔حضرت عطِیَّہ
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور شیطان
آگ سے پیدا کیاگیا ہے اور آگ کو پانی کے ذریعے ہی بجھایا جا سکتا ہے ، لہٰذاجب
تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے وضو کر لینا چاہئے۔(ابوداؤد،کتاب الادب،باب مایقال
عندالغضب، 4/327الحدیث 4484)
7)۔۔پیارےآقامدینےوالےمصطفےٰ
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : جہنَّم کا ایک دروازہ ہے ،
جس سے وہی لوگ داخِل ہوں گے جن کا غصّہ اللہ پاک کی نافرمانی کے بعد ہی ٹھنڈا ہوتا
ھے ۔ (شعب الایمان ج6ص320 حدیث8331، بحوالہ غُصےکاعلاج صـ2ناشر مکتبۃ المدینہ کراچی)
اگرکوئی ہم
سےاُلجھے یا بُرا بولے ھمیں اُس وَقت خاموش رھنےمیں ھی ہمارے لئے عافیت ھےبھلے شیطان
لاکھ وَسوَسے ڈالےکہ تُوبھی اس کوجواب دے ورنہ لوگ تجھے بزدل کہیں گے۔
دیکھ شرافت کا
زمانہ نہیں ہے اِس طرح تو لوگ تجھ کو جینے بھی نہیں دیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں ایک
حدیث پاک پیش کرتاہوں اس کو پڑھ کر اندازہ ھو گا کہ دوسرےکے بُرا بھلا کہتے وَقت
خاموش رہنے والارحمتِ الٰہی کے کس قدر نزدیک ہوتا ہے ۔چنانچہ
8)۔سرکارِمدینہ
صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی موجودگی میں کسی آدمی نے مسلمانوں کے
پہلےخلیفہ حضرتِ سیِّدُنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو نامناسب الفاظ کہے،جب
اُس نےبہت زِیادَتی کی توحضرتِ سیدنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نےاُس کی بعض
باتوں کا جواب دیا(حالانکہ آپ کی جوابی کاروائی گناہ سےپاک تھی مگر)حضورِ انور
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وہاں سے اُٹھ کر چل دیئے ،
مسلمانوں
کےپہلےخلیفہ حضرتِ سیِّدُناابوبکرصِدِّیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ حضورِاکرم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے پہنچے عرض کی: یارَسُوْلَ
اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! وہ مجھےنامناسب الفاظ
کہتا رہا آپ تشریف فرمارھے،جب میں نے اُس کی بات کا جواب دیا تو آپ اُٹھ گئے
!فرمایا:’’تیرے ساتھ فرشتہ تھا جو اُس کا جواب دے رہا تھا، پھر جب تونے خود اُسے
جواب دینا شروع کیا تو شیطان درمیان میں آکُودا ۔ ‘‘(مسند امام احمد بن حنبل ج۳ص232حدیث934)بحوالہ غُصےکا علاج صـ4 ناشر مکتبۃ المدینہ کراچی پاکستان