فرعونیوں کے عذابات

فرعون اصل میں ایک شخص کا نام تھا پھر دورِ جاہلیت میں یہ مصر کے ہر بادشاہ کا لقب بن گیا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے فرعون کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا۔(تفسیر صراط الجنان ، پ 9 ، الاعراف ، تحت الایۃ:103 )

مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کے لئے بُت بنوا دیئے تھے اور ان کی عبادت کرنے کا حکم دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں تمہارا بھی رب ہوں اور ان بُتوں کا بھی۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ فرعون دَہری تھا یعنی صانعِ عالَم کے وجود کا منکر، اس کا خیال تھا کہ عالَمِ سِفْلِی کی تدبیر ستارے کرتے ہیں اسی لئے اُس نے ستاروں کی صورتوں پر بت بنوائے تھے، ان کی خود بھی عبادت کرتا تھا اور دوسروں کو بھی ان کی عبادت کا حکم دیتا تھا اور اپنے آپ کوزمین کا مُطاع و مخدوم کہتا تھا اسی لئے وہ ” اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى(میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں ) کہتا تھا۔(تفسیر مدارک، پ 9، الاعراف، تحت الآیۃ: 127، ص381۔ تفسیر خازن، پ 9 ، الاعراف، تحت الآیۃ: 127، 2 / 128)

جب فرعون اور اس کی قوم اللہ پاک کی روشن نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائی اور اسی سرکشی اور ہٹ دھرمی پر اڑی رہی اور بنی اسرائیل پر مظالم کرتی رہی تو ان پر عذاب کا سلسلہ شروع ہوا ۔سورۃُ الاعراف میں اللہ پاک کا فرمان ہے :

وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(۱۳۰)

ترجمہ کنزالایمان :اور بے شک ہم نے فرعون والوں کو برسوں کے قحط پھلوں کے گھٹانے سے پکڑا کہیں وہ نصیحت مانیں۔

قحط سالی کی سختی ان پر اس لئے ڈالی گئی کہ وہ اس سختی سے ہی خدا کو یاد کر لیں لیکن وہ کفر میں اس قدر راسخ ہو چکے تھے کہ ان تکلیفوں سے بھی ان کی سرکشی ہی بڑھتی رہی۔

فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہوکر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند قدس کی بارگاہ میں اس طرح دعا مانگی کہ : یارب فرعون زمین میں بہت سرکش ہو گیا اور اسکی قوم نے عہدشکنی کی انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو ان کے لیے سزاوار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں کو مسلط فرما دیا وہ پانچ عذاب یہ ہیں:

طوفان :

اللہ پاک نے طوفان بھیجا، ابر آیا،اندھیرا ہوا، کثرت سے بارش ہونے لگی قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی ہنسلیوں تک آگیا جو بیٹھا ڈوب گیا نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کر سکتے تھے ۔

ٹڈیاں :

اللہ پاک نے ڈیڈی بھیجیں وہ کھیتیاں ،پھل ،درختوں کے پتے ،مکان کے دروازے ، چھتیں ،تخت حتی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں۔

گھن :

اس میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں قمل،بعض کہتے ہیں کہ یہ جوں ہے، بعض کہتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا کیڑا ہےاس کیڑے نے بچے کچے پھل اور کھیتیاں کھالیں،کپڑوں میں گھس جاتا، کھانوں میں بھر جاتا یہ کیڑے فرعونیوں کے بال بھنویں پلکیں تک چاٹ گئے، سونا دشوار کر دیا تھا، اس مصیبت سے فرعونی چیخ گئے۔

مینڈک :

حال یہ تھا کہ آدمی بیٹھا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے تھے، بات کرنے کے لیے منہ کھولتے تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا،لیٹتے تھے تو مینڈک اوپرسوار ہو جاتےتھے،اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے۔

خون :

کنوؤں کا پانی ،نہروں کا پانی ،چشموں کا پانی اور دریا نیل کا پانی غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا۔فرعون خود پیاس سے مضطرب ہوا تو اس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی اور وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہو گئی ان عذابوں کو اللہ پاک نے سورہ اعراف میں اس طرح ذکر فرمایا :فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ- فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳) ( پ 9، الاعراف :133)

ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن (یا کلنی یا جوئیں) اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔

الغرض ان سرکشوں پر مسلسل پانچ عذاب آتے رہے اور ہر عذاب ساتویں دن ٹلتا رہا اور ہر دو عذابوں کے درمیان ایک ماہ کا فاصلہ ہوتا رہا مگر فرعون اور فرعونیوں کے دلوں پر شقاوت اور بدبختی کی ایسی مہر لگ چکی تھی کہ پھر بھی وہ ایمان نہیں لائے اور اپنے کفر پر اڑے رہے اور ہر مرتبہ اپنا عہد توڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے قہر و غضب کا آخری عذاب آ گیا کے فرعون اور اس کے متبعین دریائے نیل میں غرق ہوکر ہلاک ہوگئے اور ہمیشہ کے لئے خدا کی دنیا ان عہد شکنوں اور مَردُودوں سے پاک و صاف ہو گئی اور یہ لوگ دنیا سے اس طرح نیست و نابود ہو گئے کہ روئے زمین پر ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہیں رہ گیا ۔

(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص۱۰۱)