فرعون کا مختصر تعارف:

فرعون اصل میں ایک شخص کا نام تھا، پھر دورِ جاہلیت میں یہ مصر کے بادشاہ کا لقب بن گیا، جس طرح فارس کے بادشاہ کا لقب کسریٰ، روم کے بادشاہ کا لقب قیصر اور حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی تھا، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے زمانے کے فرعون کا نام ”ولید بن مصعب بن ریّان “تھا، اس کی عمر 400 سال سے زیادہ تھی۔(تفسیر صراط الجنان، جلد اوّل وسوم)

فرعونیوں پر آنے والے عذابات:

جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا عصا اَژدھا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیا تو جادوگر سجدے میں گر کر ایمان لائے، مگر فرعون اور اس کے متبعین(پیروی کرنے والے)اب بھی ایمان قبول نہیں کیا، بلکہ فرعون کا کفر اور اس کی سرکشی اور زیادہ بڑھ گئی اور اس نے بنی اسرائیل کے مؤمنین اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دل آزاری اور اَذیّت رسانی میں بھر پور کوشش شروع کر دی اور طرح طرح سے ستانا شروع کر دیا، فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کے دربار میں اس طرح دعا مانگی:اے میرے ربّ!فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے، لہٰذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرما لے، جو ان کے لئے سزا وار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔ (تفسیر روح البیان،پ 9، الاعراف، تحت الایۃ: 133)

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار 5 عذابوں کو مسلط فرما دیا، وہ لگاتار عذاب یہ ہیں:

1۔طوفان:

اچانک ایک اَبر(بادل)آیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا، پھر انتہائی زوردار بارش ہونے لگی، یہاں تک کہ طوفان آگیا اور فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا اور پانی ان کی گردنوں تک آ گیا، وہ نہ ہِل سکتے تھے اور نہ ہی کوئی کام کر سکتے تھے، ان کی کھیتیاں اور باغات طوفان کی وجہ سے برباد ہوگئے، مسلسل سات روز تک وہ اسی مصیبت میں رہے اور بنی اسرائیل کے مکانات فرعونیوں کے گھروں سے ملے ہوئے تھے، مگر بنی اسرائیل کے گھروں میں سیلاب کا پانی نہیں آیا اور وہ نہایت ہی اَمن و چین کے ساتھ اپنے گھروں میں رہتے تھے، جب فرعونیوں کو اس مصیبت کے برداشت کرنے کی تاب و طاقت نہ رہی اور وہ بالکل عاجز ہو گئے تو ان لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے عرض کیا کہ آپ ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت ٹل جائے تو ہم ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے پاس بھیج دیں گے، چنانچہ آپ نے دعا مانگی تو طوفان کی بلا ٹل گئی اور زمین ایسی سرسبزوشاداب ہوئی کہ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی گئی، یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے کہ یہ طوفان کا پانی تو ہمارے لئے بہت بڑی نعمت کا سامان تھا، پھر وہ اپنے عہد سے پھر گئے اور ایمان نہ لائے۔

2۔ٹڈیاں:

ایک ماہ تک تو فرعونی نہایت عافیت سے رہے، لیکن جب ان کا کفر وتکبر بڑھنے لگا تو اللہ پاک نے اپنے قہرو عذاب کو ٹڈیوں کی شکل میں بھیج دیا کہ چاروں طرف سے ٹڈیوں کے جھنڈ کے جھنڈ آگئے، جو ان کی کھیتیوں اور باغوں کو، یہاں تک کہ ان کے مکانوں کی لکڑیوں تک کو کھا گئیں، مگر مؤمنین کے کھیت اور باغ اور مکانات ان ٹڈیوں سے بالکل محفوظ رہے، یہ دیکھ کر فرعونیوں کو بڑی عبرت ہوئی اور آخر اس عذاب سے تنگ آکر پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے آگے عہد کیا کہ آپ اس عذاب کے دفع ہونے کے لئے دعا فرما دیں تو ہم لوگ ضرور ایمان لے آئیں گے، چنانچہ آپ کی دعا سے ساتویں دن یہ عذاب بھی ٹل گیا، پھر ایک ماہ آرام کے بعد یہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور مومنین کو ایذاء دینے لگے اور کہنے لگے کہ ہماری جو کھیتیاں بچ گئی ہیں، وہ ہمارے لئے کافی ہیں، لہذا ہم اپنا دین چھوڑ کر ایمان نہیں لائیں گے۔

اسی طرح ہوتے ہوتے ان پر مزید عذابات بھی آئے اور آخرکار مسلسل نافرمانیوں اور عہد شکنیوں کے باعث فرعون اور اس کے متبعین(پیروی کرنے والے)دریائے نیل میں غرق ہوکر ہلاک ہوگئے اور ہمیشہ کے لئے اللہ پاک کی دُنیا ان عہد شکنوں سے پاک و صاف ہو گئی اور یہ لوگ اس طرح نیست و نابود ہو گئے کہ روئے زمین پر ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہ رہا۔

ان واقعات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عہد شکنی اور اللہ کے نبیوں کی تکذیب و توہین کتنا بڑا اور ہولناک جرم ِعظیم ہے، دوسرا یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا صبر و تحمل اِنتہا کو پہنچا ہوا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ قوم کے پیشوا کے لئے صبر و تحمل اور عفو و درگزر کی خصلت نہایت ضروری ہے۔

حضرت شیخ سعدی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:کہ برائی کا بدلہ برائی سے دینا تو بہت آسان ہے، لیکن اگر تم جوان مرد ہو تو بُرائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کرو۔(عجائب القران مع غرائب القران)

اللہ پاک ہمیں ان واقعات سے عبرت حاصل کرنے اور معلوم ہونے والے مدنی پھولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم