اللہ پاک نے قومِ فرعون کی ہدایت کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو مبعوث فرمایا، اس قوم نے حضرت موسیٰ
علیہ السّلام کی نافرمانی کی اور ایمان قبول نہیں کیا، بلکہ فرعون کا کفر اور سرکشی اور زیادہ بڑھ گئی،
اس نے بنی اسرائیل کے مؤمنین اور حضرت موسیٰ
علیہ السّلام کی دل آزاری وایذاء رسانی میں بھرپور کوشش شروع کردی اور
طرح طرح سے ستانا شروع کر دیا، فرعون کے
مظالم سے تنگ دِل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے
خداوند قدوس کے دربار میں اس طرح دعا مانگی کہ:
اے میرے ربّ!فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد
شکنی کی ہے، لہذا تو انہیں ایسے عذاب میں
گرفتار کر، جو ان کے لئے سزاوار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کیلئے عبرت ہو۔
حضرت موسیٰ
علیہ السّلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں
کو مسلط فرما دیا، وہ پانچوں عذاب یہ ہیں:
طوفان کا عذاب۔ ٹڈیاں۔گھن۔ مینڈک۔ خون
الغرض ان سرکشوں پر مسلسل پانچ عذاب آتے رہے اور ہر عذاب ساتویں دن حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا سے ٹلتا یوں کہ فرعونی عذاب سے تنگ آکر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے کہ آپ ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت ٹل
جائے تو وہ ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے پاس بھیج دیں گے، چنانچہ آپ کی دعا سے عذاب ٹل جاتا، لیکن پھر وہ اپنے عہد سے پھر جاتے تو اس طرح ان پر
دوسرا عذاب نازل ہوتا، ہر دو عذابوں کے درمیان ایک ماہ کا فاصلہ ہوتا
رہا، مگر فرعون اور فرعونیوں کے دلوں پر شقاوت و بدبختی کی ایسی مُہر لگ چکی تھی کہ پھر بھی وہ
ایمان نہیں لائے اور اپنے کُفر پر اَڑے رہے اور ہر مرتبہ اپنا عہد توڑتے رہے، یہاں تک کہ اللہ پاک کے قہر و غضب کا آخری عذاب
آگیا کہ فرعون اور اس کے متبعین سب دریائے نیل میں غرق ہوکر ہلاک ہوگئے اور ہمیشہ
کے لئے خدا کی دنیا ان عہد شکنوں اور مَردُودوں سے پاک و صاف ہو گئی اور یہ لوگ دنیا
سے اس طرح نیست و نابود کر دیئے گئے کہ روئے زمین پر ان کی قبروں کا نشان بھی باقی
نہیں رہ گیا۔(عجائب
القران مع غرائب القران، ص101)
قرآن پاک
نے ان مذکورہ عذابوں کی تصویر کشی ان الفاظ میں فرمائی:
ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن اور مینڈک اور
خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی اور جب ان پر عذاب
پڑتا، کہتے اے موسیٰ ہمارے لئے اپنے ربّ
سے دعا کرو، اس عہد کے سبب جو اس کا
تمہارے پاس ہے، بیشک اگرتم ہم پر سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور تم پر ایمان
لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے، پھر جب ہم ان سے عذاب اٹھالیتے، ایک مدت کے لئے جس تک انہیں پہنچنا ہے جبھی وہ
پھر جاتے تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا، اس لئے کہ ہماری آیتیں جھٹلاتے اور ان سے بے خبر
تھے۔ (پ 9، الاعراف:
133تا 136)