اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کےفِقْہی مقام کو سمجھنے کے لئے مسائلِ فِقْہ سے سجے ہوئے بے مثال فتاویٰ جات پرمُشتمل مجموعہ بنام”فتاویٰ رضویہ“ کی خصُوصیات میں سے چند خصُوصِیات کے بارے میں سنتے ہیں ۔چُنانچہ

٭فتاویٰ رضویہ میں علمِ حدیث و علمِ فقہ کی کُتُب کا بَھر پُورعِلم موجود ہے۔

٭ فتاویٰ رضویہ میں نادرونایاب حوالوں کابھی جگہ بہ جگہ ذِکرکیا گیاہے۔

٭ فتاویٰ رضویہ میں قرآن وحدیث کی روشنی میں نِتْ نئےمسائل حل کیے گئے ہیں۔

٭فنِّ رِیاضی اورعلمِ تَوقِیْت کے ساتھ ساتھ علمِ میراث کے متعلق بھی نادرو نایاب تحقیق موجودہے۔

٭دِیگر مذاہبِ (فقہیہ) (فِقْ ہِیْ یَہ)کےقوانین اورجُزئیات (جُزْ۔ئی۔یات) کاعلم بھی شامل ہے ۔

٭ہر مسئلے میں قرآن وسُنَّت کی پیروی کا اِہتمام کیا گیاہے۔

٭بِدْعات ومُنکِرات کا ایمان افروز رَدّکیاگیاہے۔

٭اس کے علاوہ سب سے بڑی خُصُوصیت یہ ہے کہ بڑے بڑے مُفتیانِ کرام کو فقہی مسائل کےمُعاملے میں وقتاًفوقتاًفتاویٰ رضویہ کی ضرورت پڑتی ہے،بہت سے مفتیانِ کرام فتویٰ دینے کے معاملے میں خاص طور پر فتاویٰ رَضویہ سےمددلیتے ہیں اور اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلّ آئندہ بھی مدد لیتے رہیں گے ۔

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِ ان عُلمائے کرام میں سے ہیں جنہوں نے دینِ حَق کو پھیلانے کے لئے انتہائی ذوق و شوق کیساتھ عُلُوم و فُنون حاصل کئے اور اس کے بعدان عُلوم وفُنون کے فیضان کو پوری دیانتداری کے ساتھ بے شُمار طلبائے علمِ دین کے سینوں میں منتقل فرمایا۔یقیناً یہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی کھُلی کرامت تھی،اس لئے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے شب و روز کے معمولات پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آپ رَحْمَۃُاللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا اکثر وقت تصنیف و تالیف میں ہی گُزرجایا کرتا تھا۔

جیسا کہ ملِکُ العُلَماحضرتِ علّامہ مفتی محمدظفرُ الدِّین بہاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:اَکْثر اَوْقات آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تصنیف وتالیف میں مَشْغول رہتے۔

(حیاتِ اعلیٰ حضرت)

عُموماً علمائے کرام فارغُ التحصیل ہونے کے بعد تصنیف و تالیف کے میدان میں قدم رکھتے ہیں اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے زمانَۂ طالب علمی سے ہی کتابیں تصنیف کرنے کا سلسلہ شروع فرمادیا تھا۔(حیات اعلیٰ حضرت)

جس کی ایک روشن مثال یہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے محض8 برس کی عمر میں درسِ نظامی یعنی عالم کورس کے نصاب میں شامل علمِ نحو کی مشہور و معروف کتاب بنام’’ھَدایَۃ ُالنَحْوْ‘‘نہ صرف پڑھ لی بلکہ اسی ننھی سی عُمر میں ہی اس کتاب کی عربی زبان میں شرح بھی لکھ ڈالی۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں