فتاویٰ رضویہ
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کا ایک علمی شاہکار ہے جس کا نام امام اہلسنت علیہ الرحمۃ
نے ’’العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ“ رکھا ہے، (فتاویٰ
رضویہ ار شادیہ ص ۳)، فتاویٰ رضویہ علوم فنون کے جواہر پاروں سے مزین ہے اس
کی ایک چھوٹی سی نظیر خطبہ فتاوی رضویہ ہے اس خطبے میں آئمہ مجتہد ین و کتب فقہ کے
۹۰ اسمائے گرامی کو صنعت استہلال استعمال کرتے ہوئے اس انداز سے ایک لڑی میں پُرو
دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بھی ہوگئی
اور ان اسما مقدسہ سے برکت بھی حاصل ہوگی۔
۲۔ سجدۂ تعظیمی کی
حر مت پر جب مصنف فتویٰ نے قلم کو جنبش دی تو 40 احادیث اور ڈیڑھ سو نصوص سے اپنے دعویٰ کو ثابت کیا۔(فتاویٰ
رضویہ ۲۲/۲۵۱)
۳۔ دلائل و استشہادات
کی کثرت کی جو بہار فتاویٰ رضویہ میں ہے کسی اور فتاویٰ میں اس کا عشر ِعشیر بھی
نہیں ملتا جس کی ایک جھلک (لمعة الضحی فی اعفاء اللحی ) جیساتحقیقی فتویٰ ہے جو ایک مٹھی داڑھی کے وجوب پر تحریر کیا گیا ہے، اس میں 18 آیتوں 72 حدیثوں، 60 ارشاداتِ علما و غیرہ کل ڈیڑھ سو نصوص کے ذر یعے باطل کا ابطال اور حق کا احقاق کیا گیا ۔(فتاویٰ
رضویہ ۲۲/ ۶۰۷)
۴۔ نبی کریم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کے افضل المرسلین ہونے پرایک عالم دین نے سوال کیا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی افضلیت پر صراحتہ کوئی آیت نہیں ملتی آپ نے ۱۰ آیت کریمہ ۱۰۰ احادیث سے حق کو اُجاگر کیا۔(فتاویٰ
رضویہ ۳۰/۱۲۹)
۵۔ نبی کریم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام پاک پرانگوٹھے چومنےکے
مسئلے پر (منیر العین
فی حکم تقبیل الابہامین ) کے نام سے تقریبا ۲۰۰ صفحات پر
مشتمل فتویٰ میں فتاویٰ رضویہ کا حصہ
ہے جو ۳۰ افادات پرمشمل ہے۔
ہر فتوے میں اصول
حدیث ذکر کرنے کے بعد اس کے دلائل کا انبار لگادیا۔(فتاویٰ رضویہ ۵/۴۲۹)
۶۔ سوال ہے کہ ہر
پہلو پر تنقح بھی فتاویٰ کا خاصہ ہے جیسا کہ ایک سوال طلاق واقع ہونے یا نہ ہونے
کے متعلق پوچھا گیا تو جواب میں اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ جس طر ح سوال کی نوعیت ہے
اس لحاظ سے تو اس سوال کے 58 جواب ہوسکتے ہیں کونکہ اس کی 58 شکلیں بنتی ہیں، تمام
ممکنہ صورتوں کا جواب بھی مرحمت فرمایا۔(فتاویٰ رضویہ ۱۲، ۴۳۶) ملخصاً
۷۔ امریکی مجسم
پروفیسر البرٹ نے 1919دسمبر 17 كو ایک
ہولناک پیشن گوئی کی جس میں سورج میں
سوراخ ہونے زمین میں تباہی کے انکشافات کیے تھے اعلیٰ حضرت نے آیاتِ قرانیہ اور ۱۷ دلائل عقلیہ سے اس کی پیش گوئی کو پارہ پارہ رکرنے کے بعد آخر میں فرمایا منجم پر اور مواخذات بھی ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ ۲۷/۲۴۱۔۲۴۲) پھر سب نے دیکھا
اس منجم کی پیشن گوئی جھوٹی اور امام اہلسنت کا کلام سچا ہوا۔
۸۔ فتاویٰ رضویہ کا
۱۵ صفحات پر مشتمل مختصر رسالہ بنام (التحیریات التدبیر) بھی ۲۱ آیت قرآن ۴۰ احادیث نبویہ کثیر نصوص و جزئیات سے معمور ہے، اتنا تحر یرکرنے کے بعد
صاحبِ فتاویٰ کی شان دیکھئے آپ فرماتےہیں :فقیر دعویٰ کرتا ہے کہ ان
شآ اللہ اگر محنت کی جائے تو ۱۰۰۰سے زائد آیات و احادیث اس پر جمع
ہوسکتی ہے۔
۹۔علم کلام، و علم حدیث و اصول حدیث فقہ کا علاوہ طب نجوم و تاریخ ہیئت فلسفہ اور اس
جیسی کئی علوم جدیدہ قدیمہ کے متعلق
فتاویٰ جات و مسائل بھی فتاویٰ رضویہ کا حصہ ہیں۔
۱۰۔ فتاویٰ رضویہ کی
ایک نمایاں خصوصیات یہ بھی ہے کہ اس میں موجود ہر رسالے کا نام تاریخی ہے جس سے اس
رسالہ کا سن تحریر نکالا جاسکتا ہے۔
کیا بیان کریں اور
کیا چھوڑیں یہ تو اس عظیم بے نظیر شاہکار کے بحربے کر اں میں سے چند قیمتی موتی بطور نمونہ ذکر کیے
گئے ہیں ورنہ اس کی گہرائیوں میں سے گوہر نایاب نکالنے کے لیے محققین اب تک اس
سمندر میں غوطہ زن ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ان شا اللہ
عزوجل
ملکِ سخن کی شاہی تم
کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھادیئے
ہیں
زندگیاں ختم ہوئیں
اور قلم ٹوٹ گئے
تیرے اوصاف کا ایک
باب بھی پورا نہ ہوسکا