فلاح و کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ جب
آدمی ایسے راستے سے گزر جائے جس میں اس کے سامنے بہت رکاوٹیں،کانٹے اور پھسلنے کی
جگہیں ہوں اور وہ ان راستوں سے صحیح سلامت گزر جائے تو وہ کامیاب ہے۔اصل کامیابی
ہر مسلمان کو حاصل ہے کیونکہ اس کے پاس ایمان کی نیکی ہے۔انسان اپنے اعمال اور
عقائد کو درست کر لے تو وہ کامیاب ہے۔(1)ترجمہ:تم سے نئے چاند کے بارے میں سوال
کرتے ہیں۔تم فرما دو یہ لوگوں اور حج کے لئے وقت کی علامتیں ہیں اور یہ کوئی نیکی
نہیں کہ تم گھروں میں پچھلی دیوار توڑ کر آؤ ہاں اصل نیک تو پرہیز گار ہوتا ہے اور
گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔(پ2،البقرۃ:189)تفسیر:یہ
آیت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ
عنہ
اور ایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ
کے جواب میں نازل ہوئی۔ ان دونوں نے نبیِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے چاند کے گھٹنے بڑھنے کے بارے میں
سوال کیا اس کے جواب میں چاند کے گھٹنے بڑھنے کے سبب کے بجائے اس کے فوائد بیان
فرمائے کہ وہ وقت کی علامتیں ہیں کیونکہ آدمیوں کے ہزاروں دینی اور دنیاوی کام اس
سے متعلق ہیں۔زراعت،تجارت،لین دین کے معاملات،روزے اور عیدکے اوقات،عورتوں کی عدتیں،حیض کے ایام،حمل و دودھ
پلانے کی مدتیں اور چھڑانے کی مدتیں اور حج کے اوقات اس سے معلوم ہوتے ہیں۔ بہت سے
احکام میں چاند کا حساب رکھنا ضروری ہے جیسے بالغ ہونے کی عمر،عیدین،زکوٰۃ میں جو
سال گزر گزرے اس کا اعتبار بھی چاند سے ہے۔(تفسیر
صراط الجنان،1/303)(2) ترجمہ: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے
جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی
لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(پ4،ال
عمران:104)تفسیر:آیتِ
مبارکہ میں فرمایا گیا کہ چونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ تمام کے تمام مسلمان ایک ہی
کام میں لگ جائیں لیکن اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ہو جو
لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے،انہیں نیکی کی دعوت دے،اچھی بات کا حکم کرے اور بری
بات سے منع کرے ۔مجموعی طور پر تبلیغِ دین فرضِ کفایہ ہے جیسے مصنفین کا تصنیف
کرنا،مبلغین کا بیان کرنا وغیرہ۔(تفسیر صراط
الجنان،2/26)(3)ترجمہ:اے
ایمان والو!دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے۔(پ4،ال
عمران:130)تفسیر:اس
آیت میں سود کھانے سے منع گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا۔زمانۂ جاہلیت میں سود کی
ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی۔اگر اس وقت مقروض ادا
نہ کرپاتا تو قرض خواہ سود کی مقدار میں اضافہ کردیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا
رہتا، اسے دگنا در دگنا کہا جا رہا ہے۔سود حرامِ قطعی ہے۔اسے حلال جاننے والا کافر
ہے۔(تفسیر
صراط الجنان،2/56)(4)ترجمہ:اے
ایمان والو!صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اور اسلامی سرحد کی نگہبانی کرو
اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ تم کامیاب ہوجاؤ۔(پ4،ال
عمران:200)تفسیر:صبر
کا معنی نفس کو اس چیز سے روکنا جو شریعت اور عقل کے تقاضوں کے مطابق نہ ہو۔مصابرہ
کا معنی دوسروں کی ایذا رسانیوں پر صبر کرنا۔صبر کے تحت اس کی تمام اقسام داخل ہیں
جیسے توحید،عدل،نبوت،حشر و نشر،واجبات مستحبات کی ادائیگی کی مشقت پر صبر کرنا،دنیا
کی مصیبتوں اور آفتوں پر صبر، گھر والوں، پڑوسیوں،رشتہ داروں کی بداخلاقی برداشت
کرنا وغیرہ۔(1)سرحد پر اپنے جسموں اور گھوڑوں کو کفار سے جہاد کے لئے تیار رکھو (2)اللہ
پاک کی اطاعت پر کمر بستہ رہو۔(تفسیر صراط
الجنان،2/152)(5)ترجمہ:اے
ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس
امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔(پ6،المائدۃ:35)تفسیر:آیت
میں وسیلے کا معنی یہ ہے کہ جس کے ذریعے اللہ پاک کا قرب حاصل ہو یعنی اللہ پاک کی
عبادت چاہے فرض ہو یا نفل ان کی ادائیگی کے ذریعے اللہ پاک کا قرب حاصل کرو۔ تقویٰ
سے مراد فرائض و واجبات کی ادائیگی اور حرام چیزوں کو چھوڑ دینا اور وسیلہ تلاش
کرنے سے مطلقاً ہر وہ چیز جو اللہ پاک کے قرب کے حصول کا سبب بنے مراد لی جائے
درست ہےجیسے رب کریم کی بارگاہ میں اس کے نیک بندوں کا وسیلہ بنانا،ان کے وسیلے سے
دعا کرنا جائز بلکہ صحابہ کا طریقہ رہا ہے۔نیک بندوں کا وسیلہ بنانا جائز ہے۔(6)ترجمہ:اے
ایمان والو!شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہیں
تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(پ7،المائدۃ:90)تفسیر:اس
آیتِ مبارکہ میں چار چیزوں کے نجاست و خباثت اور ان کا شیطانی کام ہونا بیان
فرمایا اور ان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہ چار یہ ہیں:(1)شراب(2) جوا(3)انصاب
یعنی بت(4)ازلام یعنی پانسے ڈالنا۔مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ
اللہ علیہ
فرماتے ہیں:شراب پینا حرام ہے اس کی وجہ سے بہت سے گناہ پیدا ہوتے ہیں۔اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ
فرماتے ہیں:جوئے کا روپیہ قطعی حرام ہے۔ امام عبداللہ احمد نسفی رحمۃ
اللہ علیہ
فرماتے ہیں:انصاب سے مراد بت کیونکہ انہیں نصب کر کے ان کی پوجا کی جاتی ہے،ان سے
بچنا واجب ہے۔ازلام زمانۂ جاہلیت میں کفار کے تین تیر تھے، ان میں سے ایک پر لکھا
تھا” ہاں“دوسرے پر ”نہیں“تیسرا خالی۔وہ لوگ ان کی بہت تعظیم کرتے تھے۔(تفسیر
صراط الجنان،3/20) (7) ترجمہ:تم فرما دو کہ گندا اور پاکیزہ برابر
نہیں ہیں اگرچہ گندے لوگوں کی کثرت تمہیں تعجب میں ڈالے تو اے عقل والو!تم سے ڈرتے
رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(پ7،المائدۃ:100)تفسیر:اس
آیت میں فرمایا گیا کہ حلال و حرام،نیک و بد،مسلم و کافر اور کھرا کھوٹا ایک درجہ میں
نہیں ہو سکتے بلکہ حرام کی جگہ حلال،بد کی جگہ نیک، کافر کی جگہ مسلمان اور کھوٹے
کی جگہ کھرا ہی مقبول ہے۔(تفسیر صراط
الجنان،3/35)(8)ترجمہ:تو
جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی کامیاب ہونے والے ہوں گے۔(پ18،المومنون:102
)تفسیر
:معنی یہ ہے کہ جس کے عقائد درست اور اعمال نیک ہوں گے تو اس کے اعمال کا اللہ پاک
کے نزدیک وزن ہوگا اور ایسے لوگ اپنا مقصد و مطلوب کو پا کر کامیاب ہوں گے۔(تفسیر
صراط الجنان،6/564)(9)ترجمہ:بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18،
المومنون:1)تفسیر:اس
آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے
کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور ہمیشہ کے لئے جنت
میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔(تفسیر
صراط الجنان،6/494)(10)ترجمہ:بے شک جس نے خود کو پاک کر لیا وہ کامیاب
ہو گیا وہ کامیاب ہو گیا ۔(پ30،الاعلی:14)تفسیر:تزکی
کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد خود کو کفر و شرک اور گناہوں سے پاک کرنا
ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نماز کے لئے طہارت حاصل کرنا ہے۔ تیسرا قول یہ
ہے کہ اس سے زکوٰۃ ادا کر کے مال کو پاک کرنا مراد ہے ۔(تفسیر
صراط الجنان،10/639)