دنیا میں ہر انسان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک کامیاب زندگی گزارے،اپنے مقاصدکو اس طرح حاصل کرے کہ زمانہ اُسے کامیاب تصور کرے لیکن ایک مومن کی کامیابی کا معیار وہ ہے جو اللہ پاک نے مُقَرّر فرمایا اور جس پر قرآنِ مجید، فُرقانِ حمید کی کئی آیات دلالت کرتی ہیں۔ یقیناً ہر ذی شَعُور مومن اِس بات کو بَخُوبی سمجھ لے گاکہ حقیقی کامیابی وُہی ہے جو اللہ پاک نے بَیان فرمائی، اگر خُدانخواستہ اِس میں ناکامی ہو جائے تو دُنیا میں خواہ کتنی ہی کامیابیوں کی اَسناد حاصِل ہوں سب بےکار ہیں۔فلاح و کامیابی والے کون سے اَعمال ہیں کہ جن کو بَجالانے سے ہم حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہیں۔آئیے!قُرآن کی روشنی میں اِنہیں سَمَجھنے کی کوشِش کرتی ہیں:(1)وَاتَّقُوااللّٰهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ تَرجَمہ:اور اللہ سے ڈرتے رہو اِس اُمّید پر کہ فَلاح پاؤ۔(پ2،اَلبَقَرۃ:189)اِس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے فلاح پانے کے لئے اِتَّقُوْا (اللہ پاک سے ڈَرنے) کا حُکم اِرشاد فرمایا ہے چُنانچِہ حَضرت اَنَس رضی اللہ عنہ سے رِوایت ہے، حُضُور پُر نُور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارا اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے:اِس بات کا مُستَحِق میں ہی ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے اور جو مجھ سے ڈرے گا تو میری شان یہ ہے کہ میں اُسے بَخش دوں گا۔(تفسیر صِراطُ الجِنان،جِلد :1،صفحہ :63،مطبوعہ :مکتبۃ المدینہ) اصل نیکی تقویٰ، خوفِ خُدا اور اَحْکامِ الٰہی کی اِطاعَت ہے۔(تفسیر صِراطُ الجِنان،جِلد:1،صفحہ :304،مطبوعہ :مکتبۃ المدینہ)(2)وَذٰلِكَ الْفَوْزُ العَظِیْمُ :یہ اللہ کی حَدّیں ہیں اور جو حکْم مانے اللہ اور اللہ کے رَسُول کا اللہ اُسے باغوں میں لے جائے گا جِن کے نیچے نَہریں رَواں، ہمیشہ اِن میں رہیں گے اور یہی ہے بڑی کامیابی۔(پ4،اَلنِّساء:13)یہاں اللہ پاک کی حَدّوں سے مُراد وِراثَت کے مَسائل ہیں اور اُن کو توڑنا اللہ پاک کی حَدوں کو توڑنا ہے۔اِس سے معلوم ہوا! مِیراث کی تقسیم میں ظُلْم کرنا عَذابِ اِلٰہی کا باعث ہے نیز یہاں اللہ پاک نے اپنی اور سَیِّدُ المُرسَلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اِطاعَت پر جَنَّت کا وَعدہ فرمایا ہے۔(تفسیر صِراطُ الجِنان ،جِلد :2،صفحہ :159،مطبوعہ :مکتبۃ المدینہ) اور اِسی کو بڑی کامیابی قرار دِیا ہے۔(3)وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ تَرجَمہ:اور اُس کی راہ میں جِہاد کرو اِس اُمّید پر کہ فَلاح پاؤ۔(اَلمائِدۃ، پارہ:6،آیت :35)اِس آیتِ مبارکہ میں حقیقی فلاح حاصِل کرنے کے لئے ایک اور عَمَل یعنی جِہاد کا حُکم دِیا گیا ہے۔جِہاد کرنے کے بہت سے فَضائِل ہیں۔ حضرت ابُو سَعید خُدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حُضُورِ اَقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں عَرض کی گئی:یا رَسُولَ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! لوگوں میں سے کون سا شخص اَفضَل ہے؟ اِرشاد فرمایا :جو شَخص اللہ پاک کی راہ میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جِہاد کرتا ہے نیز حضرت ابُو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے رِوایَت ہے، سَیِّدُ المُرسَلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا :اللہ پاک نے مُجاہِدین کے لئے جَنّت میں سو دَرَجے مُہَیّا فرمائے، ہر دو دَرَجوں میں اِتنا فاصِلہ ہوگا جِتنا آسمان و زَمین کے دَرمیان ہے۔(تفسیر صِراطُ الجِنان،جِلد :2،صفحہ :281-280،مطبوعہ :مکتبۃ المدینہ)(4)فَاجْتَنِبُوْہٗ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ0:اے اِیمان والو! شراب اور جُوا اور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو اِن سے بچتے رہنا کہ تُم فَلاح پاؤ۔ (پ7،المائدۃ،آیت:90)اِس آیتِ مبارکہ میں مومنین کو شراب، جُوئے، بُت اور پانسے (قِسمَت مَعلُوم کرنے کے تِیر)اِن تمام ناپاک چیزوں سے بچنے کا حُکْم دیا گیا ہے اور پِھر اِس پر کامیابی کی ضَمانَت دی گئی ہے۔اِس سے دو مَسائل مَعلُوم ہوئے:ایک یہ کہ صِرف نیک اَعمال کرنے سے کامیابی حاصِل نہیں ہوتی بلکہ بُرے اَعمال سے بچنا بھی ضَروری ہے،یہ دونوں تقوے کے دو پَر ہیں۔پَرِندہ ایک پَر سے نہیں اُڑتا ۔دُوسرے یہ کہ نیکیاں کرنا اور بُرائیوں سے بچنا، رِیا اور دِکھلاوے کے لئے نہ ہونا چاہیے بلکہ کامیابی حاصِل کرنے کے لئے ہو۔(تفسیر نُورُ العِرفان،صفحہ :194،مطبوعہ :پیر بھائی کَمپنی لاہور) (5)وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُالْمُبِیْنُ :اُس دِن جِس سے عَذَاب پھیر دِیا جائے، ضَرُور اُس پر اللہ کی مِہر ہوئی اور یہی کُھلی کامیابی ہے۔(پارہ:6،اَلْاَنعَام ،آیت :16)یعنی قِیامَت میں عَذَاب سے بَچنا،اللہ پاک کے رَحم و کَرَم سے ہو گا،صِرف اپنے اَعمال اِس کے لئے کافی نہیں اَعمال تو سَبَب ہیں۔(تفسیر نُورُ العِرفان ،صفحہ :206،مطبوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور) اور جو اللہ پاک کے رَحم، کَرَم اور فَضْل سے عَذاب سے بَچا لیا گیا، یقیناً کامیاب ہو گیا۔(6)ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ :اور سب میں اگلے پہلے مُہاجِر و اَنصار اور جو بھلائی کے ساتھ اِن کے پیرو ہوئے اللہ اِن سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور اُن کے لئے تَیَّار کر رکھے ہیں باغ جِن کے نیچے نہریں بَہیں ہمیشہ ہمیشہ اِن میں رَہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔(پارہ:11،التوبۃ، آیت :100)اِس آیتِ مبارکہ میں اس عَقیدہ کا بَیان ہے جِس کو ماننے والا ہی کامیاب ہے کہ اِس سے مَعلُوم ہوا!قِیامت تک کے تَمام وہ مُسلمان جو مُہاجِرین و اَنصار کی اِطاعَت و پیروی کرنے والے ہیں یا باقی صَحابہ کِرام علیہم الرضوان ، اللہ پاک اِن سب سے راضی ہے نیز قِیامَت تک وہی مُسلمان حَق پر ہیں جو تَمام مُہاجِرین و اَنصار صَحابہ کے پیروکار ہیں۔(تفسیر نُورُ العِرفان ،صفحہ :322،مطبوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور) اور اُن ہی کے لئے اللہ پاک نے جَنّت کا وعدہ فرما کر اِسے بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔(7)ذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُالْعَظِیْمُ :اُنہیں خُوشخَبری ہے دُنیا کی زِندگی میں اور آخِرَت میں اللہ کی باتیں بَدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے۔(پارہ:11،یُونُس،آیت:64)اِس آیتِ مبارکہ کے حَوالے سے مُفَسِّرین کے کئی اَقوال ہیں:ایک قول یہ ہے کہ اس خُوشخبری سے وہ مُراد ہے جو پرہیزگار اِیمانداروں کو قرآنِ کریم میں جابَجا دی گئی ہےاور ایسے ہی لوگوں کو کامیاب قرار دیا گیا ہے ،گویا معلوم ہوا! حقیقی کامیابی کے حُصُول کے لئے فَرمانبرداری لازِم ہے نیز یہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ پاک کے وَعدے خِلاف نہیں ہو سکتے جو اُس نےاپنی کِتاب میں اور اپنے رَسُولوں کی زَبان سے اپنے اولِیاء اور اپنے فَرمانبردار بَندوں سے فرمائے۔(تفسیر خزائنُ العِرفان ،صفحہ :389-388،مطبوعہ :پاک کَمپنی لاہور)(8)فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا :اور جو اللہ اور اُس کے رَسُول کی فرمانبرداری کرے،اُس نے بڑی کامیابی پائی۔(پارہ:22،اَلاَحزاب،آیت:71)اِس سے معلوم ہوا! حقیقی کامیاب زِندگی وہ ہے جو اللہ پاک اور اُس کے رَسُول کی اِطاعَت میں گُزرے۔(تفسیر نُورُالعِرفان،صفحہ :681،مطبوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور) یعنی جو حقیقی فلاح و کامیابی کا طالِب ہے اُسے صِرف اِطاعَتِ اِلٰہی اور اِطاعَتِ رَسُول کو اَپنانا ہوگااور زِندگی کے تَمام پہلوؤں میں صِرف شریعت کے اُصُولوں پر نَظَر رکھنی ہوگی تو اُسے دُنیاوی اور اُخرَوی دونوں کامیابیاں عطا کی جائیں گی۔(9)وَاذْکُرُوااللّٰهَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ تَرجَمہ:اور اللہ کو بہت یاد کرو اس اُمّید پر کہ فلاح پاؤ۔(پارہ :28،اَلْجُمُعَۃ،آیت :10)یعنی نَماز کے علاوہ بھی ہر حَال میں رب کو یاد کیا کرو ذِکرُاللہ تمہارا مَشغَلہ ہونا چاہیے۔(تفسیر نُورُالعِرفان ،صفحہ :885،مطبوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور) اور اِس عَمَل پر بھی فلاح کی ضَمانَت دی گئی ہے یعنی جو کَثرت سے ذِکرُاللہ کرے گا تو وہ فلاح پالے گا۔(10)قَدْ اَفْلَحَ الْمومنوْنَ0تَرجَمہ:بے شک مُراد کو پہنچے اِیمان والے۔(پارہ :18،اَلْمومنوْنَ،آیت:1)یہاں تمام اَعمال کا خُلاصَہ یہ ہوا کہ حقیقی کامیابی مومنین ہی کو حاصِل ہےاور وُہی مُراد کو پُہنچے ہیں اِس طرح کہ جَنّت اور وہاں کی نِعمَتوں کے مُستَحِق ہوئے اور دیدارِ اِلٰہی کے حقّ دار بنے یا دُنیا میں مَقبولُ الدُّعاء ہوئے اور اُن کی زِندگی کامیاب ہوئی ۔معلوم ہوا! اِیمان اور تقویٰ دونوں جَہان کی کامیابیوں کا ذَریعہ ہیں اِس سے دُعائیں قَبُول،آفات دُور، مُرادیں حاصِل ہوتی ہیں۔(تفسیر نُورُالعِرفان ،صفحہ :545،مطبوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور)