اس تیز رفتار دور میں ہر شخص ایک ہی چیز پانے کے لئے  صبح و شام نجانے کتنی جدوجہد،کتنی دوڑ بھاگ کر رہا ہے۔ ہر ایک کے لئے اس کا معنی الگ ہو سکتا ہے لیکن چاہیے یہ سبھی کو ہے اور وہ بیش قیمتی شے کامیابی کسی کے لئے کسی منصب کو پانے کا نام ہے۔ کسی غریب کے لئے خود کا گھر بنانا تو کسی کے لئے ترقیوں کی منازل طے کرنا ہے مگر ہم سب کا رب کریم ہمیں اصل کامیابی کی کنجی بار بار دے رہا ہے اپنے کلام قرآنِ مجید میں۔اے کاش!اس کنجی کا استعمال کر کے ہم اپنے لئے فلاح کے دروازے کھول پائیں چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے:فلاح پانے کے لئے ایمان شرط ہے۔ سورۂ مومنون کی پہلی آیت ہی وہ یہ واضح کر دیتی ہے کہ ایمان والے ہی فلاح کو پہنچے۔جب ایمان نے فلاح کے دروازے کھول دیے تو اب کون سے اعمال مومن کو فلاں کی بلندیوں پر پہنچائیں؟فہرست لمبی ہے لیکن یہاں دس ایسے فلاح پانے والے اعمال کو مختصرا قرآنِ پاک کی روشنی میں بیان کرنے کی ناقص کوشش ہے۔سورۃ المومنون کی ابتدائی آیتیں ہماری رہبری کرتی ہیں اور ہمیں بتا رہی ہیں کہ کون جنت الفردوس کے وارث اور حقیقی طور پر کامیاب ہے چنانچہ پہلا عمل خشوع کے ساتھ نماز پڑھنا چنانچہ سورۃ المومنون کی دوسری آیت کا ترجمہ ہے:جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔(پ18،المومنون: 2) مشہور مفسر، حکیم الامت مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:اس طرح کہ نماز کی حالت میں ان کے دلوں میں رب کریم کا خوف اعضاء میں سکون ہوتا ہے۔نظر اپنے مقام پر قائم ہوتی ہے۔نماز میں کوئی عبث کام نہیں کرتے ۔دھیان نماز میں رہتا ہے۔نماز قائم کرنے کے یہی معنی ہے۔اللہ پاک نصیب کرے۔ آمین۔دوسرا عمل بیہودہ بات سے بچنا:اس آیت کی تفسیر میں مفتی صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:یعنی ایسا کام نہیں کرتے جس میں دینی یا دنیاوی نفع نہ ہو۔تیسرا عمل:زکوٰۃ دینا۔ (پ18،المومنون:4)اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ زکوٰۃ دیا کرتے ہیں۔(تفسیر نور العرفان) چوتھا عمل:اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنا۔(پ18،المومنون:5)جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اس طرح کہ زنا اور لوازمِ زنا سے بچتے ہیں حتی کہ غیر کا ستربھی نہیں دیکھتے۔پانچواں عمل:امانت میں خیانت نہیں کرتے اور اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں۔سورۃ المومنون کی آٹھویں آیت کا ترجمۂ کنزالایمان ہے:اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں۔مفتی صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: وہ اس طرح اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں کہ مخلوق کی اور خالق کی امانت میں خیانت نہیں کرتے۔خیال رہے!ہمارے اعضاء رب کی امانتیں ہیں۔ ان سے گناہ کرنا امانت میں خیانت ہے۔ ایسے ہی اللہ پاک سے،اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے اور دیگر مخلوق سے جو وعدے کیے سب پورے کرے۔چھٹا عمل:اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔(پ18،المومنون:9)نماز کی حفاظت کی تین صورتیں ہیں:(1) ہمیشہ پڑھنا(2)صحیح وقت پر پڑھنا(3)صحیح طریقے سے واجبات،سنن،مستحبات سے پڑھنا۔صوفیائے کرام کے نزدیک نماز کی حفاظت یہ ہے کہ ایسے گناہوں سے بچے جن سے نیکی برباد ہو جاتی ہے۔اللہ پاک توفیق دے کہ مرتے وقت تک نماز،روزہ، حج وغیرہ کو سنبھالیں۔آمین۔خیریت سے یہ متاعِ منزل مقصود پر پہنچے۔(تفسیر نورالعرفان)ساتواں عمل:اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا حکم ماننا:مزید سورۃ النور کی آیت نمبر 51 اور 52ہمیں ہدایت دیتی ہے کہ کامیاب وہ ہیں جو اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اطاعت کریں اور ان کے حکم کو مانیں۔ان آیات کے تحت مفتی احمدیار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس سے معلوم ہوا! حکمِ پیغمبر میں عقل کو دخل نہ دو کہ اگر عقل نہ مانے تو قبول نہ کرو بلکہ جیسے بیمار اپنے کو حکیم کے سپرد کر دیتا ہے ایسے ہی تم اپنے کو ان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سپرد کر دو پھر دین و دنیا میں کامیاب ہو کیونکہ ہماری آنکھیں،عقل جھوٹے ہو سکتے ہیں مگر وہ سچوں کا بادشاہ یقیناً سچا ہے۔آٹھواں عمل:تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرنا:سورۃ النورکی آیت نمبر52 میں ہے:جو اللہ سے ڈرے اور پرہیزگاری کرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔(ترجمۂ کنزالایمان،پ18،النور:52) نواں عمل:ذکرُ اللہ میں مشغول ہونا:پارہ 28 کی سورۃ الجمعہ کی دسویں آیت ہمیں سکھاتی ہے:اللہ کوبہت یاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔(ترجمۂ کنزالایمان،پ28،الجمعۃ:10) یعنی نماز کے علاوہ بھی ہرحال میں رب کو یاد کیا کرو۔ ذکر اللہ تمہارا مشغلہ ہونا چاہیے۔(تفسیر نور العرفان)دسواں عمل:اللہ پاک کی نعمتوں کو یاد کرنا: پارہ8کی سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 69 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو کہ تمہیں تمہارا بھلا ہو۔مفتی صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:معلوم ہوا! خدا کی نعمتوں کو یاد کرنا اور یاد رکھنا عبادت ہے۔اس میں محفلِ میلاد شریف بھی داخل ہے کہ اس میں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت کا چرچا ہے اور ولادتِ حضور اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔(تفسیر نورالعرفان) قرآن کا نظریہ فلاں کے بارے میں جاننے کے بعد اگر غور کریں تو کتنے آسان کتنے سہل اعمال میں ہی جنت کی بشارت دے دی اس پاک پروردگار نے۔ کتنا رحمن ہے ہمارا رب سبحان اللہ!نہ صرف بڑی آسانی سے جنت کی ضمانت دے دی بلکہ پرسکون زندگی گزارنے کا بھی بہترین نسخہ بتا دیا۔ اگر عام مومن ان اعمال کو اپنا معمول بنا لے تو اس کا نظریہ بھی بہت جلد بدل جائے گا ان شاءاللہ۔ہر حال میں شکر کرنا اور خوش رہنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔ دنیاوی معاملے نپٹ جائیں گے۔ دل جنت کی جستجو میں لگ جائے گا اور ہر آن جنت کی تمنا اور جنت پانے والے کام کو تلاشے گا۔بندہ جو بھی عمل کرے گا اس فکر میں کرے گا کہ میرا رب اس عمل سے راضی ہے خواہ وہ عمل دینی ہو یا دنیاوی اور جب بندہ ایمان کی اس حسین منزل کو پہنچتا ہے تو صحیح معنی میں فلاں کو پہنچتا ہے۔ اللہ کریم ہمیں بھی ان خوش نصیب بندوں میں شامل کر دے جو فلاں کو پہنچے۔ آمین۔ آخر میں مضمون کو اس دعا پر مکمل کرتی ہوں کہ اللھم اجعلنا مفلحین۔

صلوا علی الحبیب! صلی اللہ علی محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم