تمہید !تھوڑی سی عقل رکھنے والا بھی
جانتا ہے کہ جو چیز جس کام کے لئے بنائی جائے اگر اُس کام میں نہ آئے تو بے کار
ہے، لِہٰذا جو بندہ اپنے خالِق و مالِک کو نہ پہچانے، اُس کی بَنْدَگی و عِبَادَت
نہ کرے وہ نام کا انسان تو ہے مگر حقیقت
میں نہیں بلکہ ایک بے کار چیز ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتی ہیں کہ عِبَادَت و بَنْدَگی
ہی سے انسان انسان ہے اور اسی سے اس کی فلاحِ دُنْیَوی و نَجاتِ اُخْرَوِی
ہے۔یادرکھئے! ایمان لانے کے بعد اَوامرونَواہی( یعنی فرض
وواجب اورحرام ومکروہ )میں اللہ پاک کے محبوب صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اِتباع کا نام اِطاعت و عبادت ہے
خواہ ان کا تعلق گفتار سے ہو یا کردار سےیعنی تمہارا کچھ بولنا یا نہ بولنا اور
کچھ کرنا یا نہ کرنا الغرض سب کچھ تمہارے قول و فعل کو شریعت کے مطابق ہونا چاہئے
یہی تمہاری کامیابی و فلاح ہے۔قرآنِ کریم،فرقانِ حمید کی روشنی میں فلاح:اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:قَدْ اَفْلَحَ الْمؤمنوْنَ0(پ المؤمنون 18)ترجمۂ
کنز الایمان بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے۔اس آیت
میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات
پاجائیں گے۔(تفسیرکبیر،
المؤمنون،تحت الآیۃ: 1، 8 / 258- روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: 1، 6 / 66،
ملتقطاً)سورۂ
مومنون کی ابتدائی دس آیات کے بارے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ
عنہ
فرماتے ہیں: ’’جب نبی ِاکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ کے چہرۂ اقدس کے پاس
مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آواز سنائی
دیتی۔ایک دن وحی نازل ہوئی تو ہم کچھ دیر ٹھہرے رہے، جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے قبلہ رو ہو کر ہاتھ اٹھائے اور یہ
دعا مانگی:’’اے اللہ پاک! ہمیں زیادہ عطا
کرنا اور کمی نہ فرمانا، ہمیں عزت دینا
اور ذلیل نہ کرنا،ہمیں عطا فرما نااور
محروم نہ رکھنا،ہمیں چن لے اور ہم پر کسی
دوسرے کو نہ چن۔اے اللہ پاک! ہمیں راضی
فرما اور ہم سے راضی ہو جا۔اس کے بعد ارشاد فرمایا:’’مجھ پر دس آیات نازل ہوئی
ہیں جس نے ان میں مذکور باتوں کو اپنایا وہ جنت میں داخل ہو گا،پھر آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے’’قَدْ اَفْلَحَ الْمؤمِنوْنَ‘‘سے
لے کر دسویں آیت کے آخر تک پڑھا۔(
ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المؤمنین، 5 / 117، حدیث: 3184)ایمان
والوں کے اوصاف:اللہ پاک نے سورۃ المؤمنون کی آیت 2 تا 9 میں ایمان والوں اوصاف
بیان کیے ہیں: الَّذِیْنَ
هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ0جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے
والے ہیںوَالَّذِیْنَ
هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ0اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے
ہیں وَ الَّذِیْنَ
هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ0اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے
ہیںوَ
الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ0اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْمَا
مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ0اور وہ جو
اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو
ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔فَمَنِ ابْتَغٰى
وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ0تو جو اِن کے
سوا کچھ اور چاہے تووہی حد سے بڑھنے والے ہیں وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ0اور وہ جو اپنی امانتوں اور
اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں وَالَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ0 اور
وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ایمان والوں کی فلاح و کامیابی:سورۃ
المؤمنون میں ایمان والوں کے اوصاف بیان کرنے کے بعد آیت نمبر 10 اور 11 میں ارشاد
فرمایا:اُولٰٓىٕكَ
هُمُ الْوٰرِثُوْنَ0الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ؕهُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ0یہی
لوگ وارث ہیں یہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔سبحان اللہ!
اللہ کریم ہمیں بھی کامل ایمان والا بنائے۔آمین۔سورۃ المائدہ آیت نمبر 35 میں
فرمانِ باری ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا
اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَجَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ0اے
ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس
امید پر کہ فلاح پاؤ۔آیت میں وسیلہ کا معنی یہ ہے کہ ’’جس کے ذریعے اللہ
پاک کا قرب حاصل ہو“ یعنی اللہ پاک کی عبادات چاہے فرض ہوں یا نفل، ان کی ادائیگی
کے ذریعے اللہ پاک کا قرب حاصل کرو ۔ اگر تقویٰ سے مراد فرائض و واجبات کی ادائیگی
اور حرام چیزوں کو چھوڑ دینا مراد لیا جائے اور وسیلہ تلاش کرنے سے مُطْلَقاً ہر
وہ چیز جو اللہ پاک کے قرب کے حصول کا سبب بنے مراد لی جائے تو بھی درست ہے۔اللہ
پاک کے انبیا علیہم
الصلوۃ و السلام اولیا رحمۃُ
اللہِ علیہم
سے محبت،صدقات کی ادائیگی،اللہ پاک کے محبوب بندوں کی زیارت، دعا کی کثرت، رشتہ
داروں سے صِلہ رَحمی کرنا اور بکثرت ذِکْرُ اللہ میں مشغول رہنا وغیرہ بھی اسی
عموم میں شامل ہے۔ اب معنی یہ ہوا کہ ہر وہ چیز جو اللہ پاک کی بارگاہ کے قریب کر
دے اسے لازم پکڑ لو اور جو بارگاہِ الٰہی سے دور کرے اسے چھوڑ دو۔ (تفسیرصاوی،
المائدۃ،تحت الآیۃ: 35، 2 / 497)اللہ پاک کا قرب حاصل کرنے اور دنیا و
آخرت کی فلاح و کامیابی کے لئے ہمیں عبادت الٰہی کرنی چاہیے اور اس پر استقامت کے
لئے اللہ پاک کے نیک بندوں کا دامن تھام لینا ان کی صحبت و قرب احتیار کرنا بھی
بہت بڑی کامیابی ہے۔پردہ بھی
ہماری فلاح کا ذریعہ ہے چنانچہ سورۃ النور آیت 31 میں فرمانِ خداوندِ کریم ہے:اور
مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی
حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا (بدن کاحصہ) خود ہی ظاہر ہے اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی
زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں
یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں یا اپنی (مسلمان) عورتوں یا اپنی کنیزوں پر جو ان کی ملکیت ہوں یامردوں میں
سے وہ نوکر جو شہوت والے نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر
نہیں اور زمین پر اپنے پاؤں اس لئے زور سے نہ ماریں کہ ان کی اس زینت کا پتہ چل
جائے جو انہوں نے چھپائی ہوئی ہے اور اے مسلمانو!تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اس
امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔پردے کے دینی اور دُنیوی فوائد :پردےکے4 دینی فوائد یہ ہیں
:(1)پردہ اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔(2)
پردہ ایمان کی علامت، اسلام کا شعار اور مسلمان خواتین کی پہچان ہے۔(3) پردہ شرم و
حیا کی علامت ہے اور حیا اللہ پاک کو بہت
پسند ہے۔(4) پردہ عورت کو شیطان کے شر سے محفوظ بنا دیتا ہے۔پردے کے4 دُنیوی فوائد
یہ ہیں :(1) باحیا اور پردہ دارعورت کو اسلامی معاشرے میں بہت عزت و وقار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔(2)
پردہ عورت کو بُری نظر اور فتنے سے محفوظ رکھتا اور بُرائی کے راستے کو روکتا ہے۔(3)
عورت کے پردے سے معاشرے میں بگاڑ پیدا
نہیں ہوتا اور معاشرے میں امن و سکون رہتاہے۔(4) پردہ عورت کے وقار میں اضافہ کرتا اور اس کی خوبصورتی کی حفاظت کرتا
ہے۔پردے
کی ضرورت واہمیت سے متعلق ایک مثال:اگر ایک پلیٹ میں مٹھائی رکھ دی جائے اور اسے کسی چیز سے ڈھانپ
دیاجائے تو وہ مکھیوں کے بیٹھنے سے محفوظ
ہو جاتی ہے اور اگر اسے ڈھانپا نہ جائے، پھر اس پر مکھیاں بیٹھ جائیں تو یہ شکایت کرنا کہ اس پر مکھیاں کیوں بیٹھ گئیں بہت بڑی بے وقوفی ہے کیونکہ مٹھائی ایسی چیز ہے
جسے مکھیوں کے تَصَرُّف سے بچانے کے لئے
اسے ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے ورنہ انہیں مٹھائی پر بیٹھنے سے روکنا بڑ امشکل ہے،اسی طرح اگرعورت جو کہ چھپانے کی
چیز ہے، اسے پردے میں رکھا جائے تو بہت سے
معاشرتی مسائل سے بچ سکتی ہے اور عزت و ناموس کے لٹیروں سے اپنی حفاظت کر سکتی ہے اور جب اسے پردے کے
بغیر رکھا جائے تو اس کے بعد یہ شکایت کرنا کہاں کی عقلمندی ہے کہ لوگ عورت کو تانک جھانک کرتے ہیں،اسے چھیڑتے ہیں اور اس کے ساتھ دست درازی کرتے ہیں کیونکہ جب اسے بے پردہ کر دیاتو غیر مردوں کی فتنہ باز نظریں ا س کی طرف ضرور اُٹھیں گی، ان کے لئے عورت کے جسم سے لطف اندوز ہونا
اور اس میں تَصَرُّف کرنا آسان ہو گا اور
شریر لوگوں سے اپنے جسم کو بچانا عورت کے
لئے انتہائی مشکل ہو گا کیونکہ فطری طور پر مردوں میں عورتوں کے لئے رغبت رکھی گئی ہے اور جب وہ بے پردہ
عورت کا جسم دیکھتا ہے تو وہ اپنی شہوت و رغبت کو پورا کرنے کے لئے اس کی طرف
لپکتا ہے۔