چغلی جیسی بیماری
اور گناہ نے اس وقت ہمارے معاشرے کو پوری طرح سے اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس
وجہ سے پورے معاشرے کے تانے بانے بکھر کر رہ گئے ہیں جبکہ اللہ رب العزت کی طرف سے
اس بات کی سختی کے ساتھ تنبیہ کی گئی ہے قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ البقرہ کی آیت
نمبر60 کے کچھ حصہ میں ارشاد باری تعالی ہے کہ وَلَا
تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ترجمہ کنزالایمان: اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو
چغلی
کی تعریف: کسی ایک شخص کی بات
دوسرے شخص تک اس نیت سے پہنچانا کہ ان کے درمیان فساد برپا ہو جائے جھگڑا ہو جائے
اسے چغلی کہتے ہیں عام فہم زبان میں اسے لگائی بجھائی بھی کہا جاتا ہے اور یہ کبیرہ
گناہ کے زمرے میں آتی ہے لہذہ اس عمل سے ہمیں ہرممکن طریقے سے بچنے کی کوشش کرنی
چاہئے۔ چغلی کی مذمت احادیث کی روشنی میں پڑھئے:
1: حضرت
ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار علیہ وآلہ وسلم نےصحابہ کرام
علیہم الرضوان سے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں نماز ,روزہ اور صدقہ سے زیادہ
افضل عمل نہ بتائوں ؟ تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا کہ کیوں نہیں یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ضرور بتائیں تو آپ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ ان دو لوگوں میں صلح کرادو جن کا آپس میں جھگڑا ہو یہ عمل نماز روزہ اور صدقہ
سے زیادہ افضل ہے اور ویسے بھی آپسی بگاڑ دین کو مونڈ کر تباہ کر دیتا ہے۔ ( سننے
ابی داؤد 4919)
2: صحیح
البخاری کی ایک حدیث جسکے راوی ہیں حضرت ہمام بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں
کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے، ان سے کہا گیا کہ ایک شخص ایسا
ہے جو یہاں کی باتیں عثمان بن عفان سے جا لگاتا ہے۔ اس پر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے
کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ
جنت میں چغل خور نہیں جائے گا۔ ( صحیح البخاری 6056)
3: صحیح
البخاری کی ایک اور حدیث حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینہ طیبہ کے کسی باغ تشریف میں لائے تو آپ نے دو
انسانوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”ان کو عذاب دیا جا رہا ہے لیکن کسی بڑی بات
(جس سے بچنا مشکل ہو) کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا حالانکہ یہ کبیرہ گناہ ہیں
ان میں سے ایک پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا۔“
پھر آپ نے کھجور کی ایک تازہ شاخ منگوائی اور اس کے دو ٹکڑے کیے۔ ایک ٹکڑا ایک قبر
پر اور دوسرا دوسری قبر پر گاڑ دیا پھر فرمایا: ”ممکن ہے ان کے عذاب میں اس وقت تک
تخفیف کر دی جائے جب تک یہ خشک نہ ہو جائیں۔“ ( صحیح البخاری 6055)