اللہ کریم نے صحابہ سے جنت کا وعدہ فرمالیا ہے۔چنانچہ الله
پاک پاره 27 سورۃ الحدید آیت نمبر 10 میں فرماتا ہے:ترجمہ کنز الایمان:تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتحِ مکہ
سے قبل خرچ کیا اور جہاد کیا،اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا اور اللہ کو
تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
صحابی کی تعریف:حضرت علامہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:الصَّحَابِي:مَن لقِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ
وَسَلَّم مُومِنًا بِهِ ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى الاسلام یعنی جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں اللہ کریم کے پیارے نبی ﷺ سے ملاقات
کی ہو اور ایمان ہی پر ان کا انتقال شریف ہوا، اُن خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں۔(نخبۃ
الفكر، ص111)
صحابہ کرام کی تعداد:اکابر محدثین کے مطابق صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تعداد ایک لاکھ سے سوا لاکھ
کے درمیان تھی۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:تمام صحابہ کرام علیہم
الرضوان کے نام معلوم نہیں ، جن کے معلوم ہیں ان کی تعداد تقریباً سات ہزار ہے۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص400)
صحابی سے کوئی بھی ولی بڑھ نہیں سکتا:بہارِ شریعت میں ہے:تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم بھلائی
والے اور عادل ہیں۔ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر (یعنی بھلائی ) ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔کسی
صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت (یعنی بُرا عقیدہ رکھنا) بد مذہبی و گمراہی و استحقاقِ
جہنم (یعنی جہنم کی حق دار ی)ہے کہ وہ ( بد اعتقادی ) حضور اقدس ﷺ کے ساتھ بغض یعنی
دشمنی ہے، کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبے کا ہو، کسی صحابی کے رتبے کو نہیں پہنچتا۔(بہارِ
شریعت،1/252 ،253)آئیے!فضائلِ صحابہ کے بارے میں حدیثِ مبارک ملاحظہ کرتی ہیں۔
(1)بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں (یعنی صحابہ کرام ) پھر جو
لوگ ان کے قریب ہیں ( یعنی تابعین ) ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں (یعنی تبعِ تابعین
)۔(مسند
امام احمد،6/393،حدیث:18474)
(2)اس مسلمان کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھایا
مجھے دیکھنے والے یعنی صحابہ عَلَيہِمُ الرضوان کو دیکھا۔(ترمذی، 5 /461، حديث:3884)
(3) میرے صحابہ
میں سے جو کسی سَر زَمین میں فوت ہوگا تو قیامت کے دن اُن لوگوں کے لیے قائد اور
نور بنا کر اٹھایا جائے گا ۔ (ترمذی،5/464 ،حدیث:3891 )
(4)میرے اصحاب کو بُرا نہ کہو،اس لئے کہ اگر تم میں سے کوئی
اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو وہ اُن کے ایک مد (یعنی ایک کلو میں 40
گرام کم ) کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اورنہ اس مد کے آدھے۔
(بخاری،2/522،حدیث:3673)
حضرت مولیٰ علی ،شیرِ خدا رضی اللہ عنہ نے سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 101
تلاوت فرمائی:اِنَّ
الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ (ترجمہ کنز الایمان:بے شک وہ جن کے لئے ہمارا وعدہ بھلائی
کا ہو چکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں۔)پھر ارشاد فرمایا:میں انہی میں سے ہوں۔حضرات
ابوبکر،عمر،عثمان،طلحہ،زبیر،سعد اور عبد
الرحمن بن عوف رضی الله عنہم بھی انہی میں سے ہیں۔(تفسیر نسفی،ص727)
الله پاک پارہ 19 سورۃ النمل آیت نمبر 59 میں فرماتا ہے:قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ
اصْطَفٰىؕ ﰰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَؕ(59) ترجمۂ
کنزالایمان: تم کہو سب خوبیاں اللہ کو اور
سلام اس کے چنے ہوئے بندوں پر۔
صحابی ابنِ صحابی حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما بیان
کردہ آیتِ مبارکہ کے اس حصے:وَ سَلٰمٌ عَلٰى
عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰىؕ (ترجمہ کنز الایمان:اور سلام اس کے چنےہوئے بندوں پر ) کی
تفسیر میں فرماتے ہیں: چنے ہوئے بندوں سے نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام مراد ہیں۔(تفسیر
طبری،4/10،رقم: 27060)
فرشتے صحابہ کا استقبال کریں گے:تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم اعلیٰ و ادنی ( اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں )
سب جنتی ہیں، وہ جہنم کی بھنک یعنی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من
مانتی مرادوں میں رہیں گے۔ محشر کی وہ بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی ،فرشتے
اُن کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔(بہار شریعت،1/25)مزید
الله پاک پارہ 17 سورة الانبياء:101 سے 103 میں ارشادفرماتا ہے:اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙاُولٰٓىٕكَ
عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ(101)لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚوَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ
اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ(102)لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ
الْمَلٰٓىٕكَةُؕهٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(103)ترجمہ کنز الایمان:بے شک وہ جن کے لیے ہمارا وعدہ بھلائی کا
ہو چکا وہ جہنم سے دور رکھے گے ہیں، وہ اس کی بھنک نہ سنیں گے اور اپنی من مانتی
خواہشوں میں ہمیشہ رہیں گے۔انہیں غم میں نہ ڈالے گی وہ سب سے بڑی گھبراہٹ اور
فرشتے اُن کی پیشوائی کو آئیں گے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔
آئیے! ایک ایمان افروز حکایت ملاحظہ کرتی ہیں۔ چنانچہ
تابعی بزرگ حضرت عبد الله بن وہب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے
ہیں کہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جب نبیِ اکرم ﷺ کے پیارے پیارے
صحابہ کرام عَلَيْہِمُ الرِّضْوَان مُلکِ شام آئے تو ایک راہب ( یعنی عیسائی عبادت
گزار )سے سامنا ہوا،راہب نے انہیں دیکھ کر کہا:اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری
جان ہے!حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری یعنی ساتھی جنہیں سولی دی گئی اور آروں سے
چیرا گیا وہ بھی مجاہدے یعنی عبادت وریاضت میں اس مقام تک نہیں پہنچے،جس مقام تک
حضرت محمد عربی ﷺ کے صحابہ کرام علیہم الرضوان پہنچے ہوئے ہیں۔حضرت عبد الله بن
وہب رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں:میں نے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کی:( راہب نے جن کی تعریف کی تھی ) آپ اُن
صحابہ کرام کے نام بتا سکتے ہیں؟تو اُنہوں نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح ،حضرت معاذ
بن جبل،حضرت بلال اور حضرت سعد بن عبادہ عَلَيہمُ الرضوان کا نام لیا۔(اللہ والوں
کی با تیں،6/463)اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔امین
ثم آمین
حضورﷺ نے صحابہ کرام سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: جو
مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ میرے صحابہ سے محبت کرے۔(تفسیر
قرطبی،6/203)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے قلوب تقویٰ و طہارت میں نہایت
مذکی و مصفی تھے، اس کو قرآنِ کریم یوں بیان کرتا ہے:اُولٰٓىٕكَ
الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ(پ26،الحجرات:3)ترجمہ:وہ ہیں جن کا دل اللہ نے
پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ۔
خلیفۂ ثانی حضرت
عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کا عزاز و اکرام کرو کیونکہ وہ تم سے
بہتر ہیں پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے۔
(مشکاة المصابیح
، 2 /413 ، حدیث : 6012)
آقا ﷺ مختلف مقامات مواقع پر اپنے صحابہ کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی بھی
فرمایا کرتے تھے جیسا کہ غزوۂ اُحد میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کی تیر
چلانے کی مہارت کو دیکھتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی ان لفظوں سے فرمائی:اِرْمِ فِدَاكَ
أَبِي وَأُمِّيیعنی تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں!تیر
مارو۔(مسلم، ص1314، حدیث:2411)
حضرت علی رضی
الله عنہ فرماتے ہیں:یہ جملے آقا ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کے علاوہ
کسی اور کو نہیں فرمائے۔(ترمذی،5/418،حدیث:3774 )
صحابہ کرام علیہم الرضوان کو ہمارے میٹھے میٹھے آقا ﷺ سے بے
حد محبت تھی،اسی محبت کی بنا پر وہ آقا ﷺ پر آئی ہر مصیبت خود پر لینے کی کوشش میں
رہتے تھے۔جیسا کہ ایک جلیل القدر بزرگ ہستی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ جن کا تعلق
عشرۂ مبشرہ سے ہے۔ان کے بارے میں آتا ہے
کہ انہوں نے اسلام کی سر بلندی کے لیے شجاعت و بہادری کے کئی جوہر دیکھائے اور اپنی
جان کی پروا کیے بغیر نبیِ کریمﷺ کی حفاظت کی خاطر کفار سے مقابلہ کیا۔آپ کی ہمت و
شجاعت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:غزوۂ اُحد میں
جب ہم حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ نبیِ کریم ﷺ کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے جسم پر ستر سے زائد
چھوٹے بڑے زخم ہیں اور ان کی انگلیاں بھی کٹ چکی ہیں۔(بخاری،20/ 539 ، حدیث:3719)
سبحان اللہ! جب صحابہ کرام اپنے آقا و مولا ﷺ سے اتنی محبت
فرمایا کرتے تھے تو آقا ﷺ کا ان سے اندازِ محبت کتنا دلکش ہو گا!آئیے!ذیل میں دی
گئی احادیث کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتی ہیں۔چنانچہ
عَنْ أَبِيْ سَعِيْدِ الْخُدْرِيِّ قَالَ:قَالَ
النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ
أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ
وَلَا نَصِيْفِهِ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی ﷺ نے فرمایا:
میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں کا کوئی اُحد(پہاڑ)بھر سونا خیرات
کرے تو ان کے ایک کے مُد کو پہنچے نہ آدھے
کو۔(بخاری،2/522، حدیث:3673)
حضرت انس رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے
صحابہ کی مثال میری امت میں کھانے میں نمک کی سی ہے کہ کھانا بغیر نمک کے درست نہیں
ہوتا۔ حسن نے فرمایا:ہمارا نمک تو چلا گیا ہم کیسے درست ہوں۔(شرح السُّنہ،7/174 ، حدیث :3756)
شرحِ حدیث:یعنی جیسے نمک ہوتا ہے تھوڑا مگر سارے کھانے کو درست کردیتا ہے ایسے ہی میرے
صحابہ میری امت میں ہیں تھوڑے مگر سب کی اصلاح انہی کے ذریعہ سے ہے۔ریل کا پہلا
ڈبہ جو انجن سے متصل ہے وہ ساری ریل کو انجن کا فیض پہنچاتا ہے،انجن سے وہ کھینچتا
ہے اور سارے ڈبے اس کے ذریعہ کھنچتے ہیں۔خواجہ حسن بصری فرماتے ہیں کہ اب ہم حضرات
صحابہ کا دیدار کیسے کریں،ان سے روایات کیسے لیں،ان سے حضور علیہ السلام کے حالات
کیسے پوچھیں وہ تو چلے گئے۔اصلاح سے مراد ہے مزیدار یعنی ہمارے اندر وہ لذت
سوزوگداز کیسے پیداہو وہ حضرات نہ رہے۔خیال رہے کہ خواجہ حسن بصری کے زمانہ میں ایک
سو دس صحابہ موجود تھے مگر چونکہ اب ان کا زمانہ ختم ہورہا تھا اس لیے آپ یہ
افسوس فرمارہے تھے۔( مراٰۃ المناجیح ، 8/ 343)
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بنی قریظہ کے پاس کون جائے گا جو ان کی خبر لائے؟
میں چل دیا۔ پھر جب میں لوٹا تو میرے لئے رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ماں باپ جمع فرما دئیے، فرمایا: تم پر میرے
ماں باپ فدا ۔ (بخاری،2/540،حدیث:3720)
سبحان اللہ!اس سے بڑھ کر خوش بختی کیا ہو گی کہ آقاﷺ اپنے
صحابہ سے فرمائیں کہ تم پر میرے ماں باپ فدا!خدا کرے! ہم بھی صحیح معنوں میں عاشقاتِ
رسول و عاشقاتِ صحابہ بننے میں کامیاب ہو جائیں۔
اٰمین بجاہِ خاتمِ
النبیینﷺ