صحابہ کرام علیہم الرضوان کو ہمارے میٹھے میٹھے آقا ﷺ سے بے حد محبت تھی،اسی محبت کی بنا پر وہ آقا ﷺ پر آئی ہر مصیبت خود پر لینے کی کوشش میں رہتے تھے۔جیسا کہ ایک جلیل القدر بزرگ ہستی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ جن کا تعلق عشرۂ مبشرہ  سے ہے۔ان کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے اسلام کی سر بلندی کے لیے شجاعت و بہادری کے کئی جوہر دیکھائے اور اپنی جان کی پروا کیے بغیر نبیِ کریمﷺ کی حفاظت کی خاطر کفار سے مقابلہ کیا۔آپ کی ہمت و شجاعت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:غزوۂ اُحد میں جب ہم حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ نبیِ کریم ﷺ کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے جسم پر ستر سے زائد چھوٹے بڑے زخم ہیں اور ان کی انگلیاں بھی کٹ چکی ہیں۔(بخاری،20/ 539 ، حدیث:3719)

سبحان اللہ! جب صحابہ کرام اپنے آقا و مولا ﷺ سے اتنی محبت فرمایا کرتے تھے تو آقا ﷺ کا ان سے اندازِ محبت کتنا دلکش ہو گا!آئیے!ذیل میں دی گئی احادیث کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتی ہیں۔چنانچہ

عَنْ أَبِيْ سَعِيْدِ الْخُدْرِيِّ قَالَ:قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفِهِ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں کا کوئی اُحد(پہاڑ)بھر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک کے مُد کو پہنچے نہ آدھے کو۔(بخاری،2/522، حدیث:3673)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی مثال میری امت میں کھانے میں نمک کی سی ہے کہ کھانا بغیر نمک کے درست نہیں ہوتا۔ حسن نے فرمایا:ہمارا نمک تو چلا گیا ہم کیسے درست ہوں۔(شرح السُّنہ،7/174 ، حدیث :3756)

شرحِ حدیث:یعنی جیسے نمک ہوتا ہے تھوڑا مگر سارے کھانے کو درست کردیتا ہے ایسے ہی میرے صحابہ میری امت میں ہیں تھوڑے مگر سب کی اصلاح انہی کے ذریعہ سے ہے۔ریل کا پہلا ڈبہ جو انجن سے متصل ہے وہ ساری ریل کو انجن کا فیض پہنچاتا ہے،انجن سے وہ کھینچتا ہے اور سارے ڈبے اس کے ذریعہ کھنچتے ہیں۔خواجہ حسن بصری فرماتے ہیں کہ اب ہم حضرات صحابہ کا دیدار کیسے کریں،ان سے روایات کیسے لیں،ان سے حضور علیہ السلام کے حالات کیسے پوچھیں وہ تو چلے گئے۔اصلاح سے مراد ہے مزیدار یعنی ہمارے اندر وہ لذت سوزوگداز کیسے پیداہو وہ حضرات نہ رہے۔خیال رہے کہ خواجہ حسن بصری کے زمانہ میں ایک سو دس صحابہ موجود تھے مگر چونکہ اب ان کا زمانہ ختم ہورہا تھا اس لیے آپ یہ افسوس فرمارہے تھے۔( مراٰۃ المناجیح ، 8/ 343)

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بنی قریظہ کے پاس کون جائے گا جو ان کی خبر لائے؟ میں چل دیا۔ پھر جب میں لوٹا تو میرے لئے رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ماں باپ جمع فرما دئیے، فرمایا: تم پر میرے ماں باپ فدا ۔ (بخاری،2/540،حدیث:3720)

سبحان اللہ!اس سے بڑھ کر خوش بختی کیا ہو گی کہ آقاﷺ اپنے صحابہ سے فرمائیں کہ تم پر میرے ماں باپ فدا!خدا کرے! ہم بھی صحیح معنوں میں عاشقاتِ رسول و عاشقاتِ صحابہ بننے میں کامیاب ہو جائیں۔

اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیینﷺ