اللہ عزوجل نے بندے کو جس بات کا حکم دیا ہے، اس کی فرمانبرداری سے بندہ دنیا اور آخرت میں عزت و عظمت کا مستحق ہوتا ہے، جبکہ اس کے برعکس گناہ انسان کو ذلت و رسوائی کے گڑھے میں گرا دیتا ہے، گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، گناہ گناہ ہی ہوتا ہے اور ان میں سے ایک گناہ ہے، بخل یعنی کنجوسی، جس کے متعلق اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے:سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ ترجمہ:عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا۔(پارہ 4 ،سورۃ آل عمران، آیت 180)

علماء کرام رحمۃ اللہ علیہم بخل کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ جہاں شرعاً یا عرف وعادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں خرچ نہ کرنا ،زکوۃ، صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے، اور دوست احباب، عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف وعادت کے اعتبار سے واجب ہے۔

قرآن وحدیث میں بخل کی بہت مذمت بیان کی گئی، چنانچہ پانچ فرامینِ مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں:

1۔آدمی کی دو عادتیں بری ہیں، بخیلی جو رُلانے والی ہے، بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔

2۔کوئی بخیل جہنم میں نہیں جائے گا۔

3۔بخیل اللہ عزوجل سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے، جبکہ جہنم سے قریب ہے۔

5۔بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اسے جہنم میں داخل کئے بغیر نہ چھوڑے گی۔

معلوم ہوا کہ بخل اور بخل کرنے والا آدمی کس قدر غلط روش اختیار کئے ہوئے ہیں، بخل کا سبب یہ ہے کہ آدمی کو دنیا سے محبت دلاتی ہے اور آخرت سے غافل کرتی ہے اور جو چیز بھی بندے کو اس کے ربّ اور آخرت کی یاد سے غافل کرے، وہ بہت بری چیز ہے۔

بخل سے بچنے کے لئے بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے دل کو صدقہ وخیرات کے ذریعے، مال کی محبت سے پاک کرے، موت کو بکثرت یاد کرے، بخل کے نقصانات کو پیشِ نظر رکھے اور صدقہ اور خیرات کے فضائل کو بھی پیشِ نظر رکھے، انشاءاللہ عزوجل مددگار ثابت ہو گا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اس مہلک مرض سے نجات عطا فرمائے۔آمین

نوٹ:یہ تحریر صراط الجنان، جلد دوم میں بخل کے بارے میں معلومات سے تیار کی گئی ہے۔