بخل نہایت ہی قبیح اور بری بیماری ہے، ہم سب کو اس بری صفت سے بچنا چاہئے، بخل کا سبب مال کی محبت ہے، یہ بہت پرانا مرض ہے، ہم اللہ عزوجل سے ایسے قبیح فعل سے پناہ مانگتے ہیں۔

بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاًیا مروتاً لازم ہو،ہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب میں خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔

قرآن پاک: اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ:اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔(پارہ 28، سورہ حشر، آیت9) ترجمہ:اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی، ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں، بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا کہ قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہے۔(پارہ 4، سورہ آل عمران، آیت نمبر 180)

صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:بخل کے معنیٰ میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب ادا نہ کرنا بخل ہے، اس لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں، اس آیت میں بھی بخل کی مذمت پر ایک وعید آئی ہے۔

احادیث مبارکہ:بہت سی احادیث مبارکہ میں بھی بخل کی مذمت بیان ہوئی ہے۔

1۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخل سے بچو، کیونکہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، ان کو ایک دوسرے کا خون بہانے اور حرام چیزوں کو حلال ٹھہرانے پر آمادہ کیا۔(مسلم شریف، ص1129، الحدیث2578)

2۔ایک اور جگہ آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:الولد مبخلۃ مجبنۃ مجھلۃاولاد بخل، بزدلی اور جہالت میں مبتلا کرنے والی ہے۔(سنن ابن ماجہ شریف،ص2696، حدیث3666)

3۔حدیث پاک میں ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے:کہ جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوۃ ادا نہ کی، تو روزِ قیامت وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لپٹے گا اور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔(بخاری شریف)

4۔حضور پاک نے ارشاد فرمایا:بخل اور بدخلقی یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔ (ترمذی شریف)

5۔سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(ابو داؤد، ص 185، ح 1698)

بخل بسا اوقات کئی گناہوں کا سبب بھی بن جاتا ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے، بخل کا علاج یہی ہے کہ وہ اپنی خواہشات اور امید کو کم کرے، کثرت سے موت کو یاد کرے، نیز ہم عصر لوگوں کی موت میں غوروفکر کرے، قبروں کی زیارت اور اس میں جو کیڑے مکوڑے ہیں، اس کی طرف غور و فکر کرے۔

اللہ عزوجل ہمیں اس بری صفت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

بخل سے بچنے کے لئے امیر اہلسنت کا رسالہبخل کی مذمت کا مطالعہ فرمائیے۔