تمہید:بخل کے بارے میں بہت سی قرآنی آیات اور حدیث مبارکہ اور اس سے نجات پانے کا ذریعہ اور علاج بھی ذکر ہوں گے،سب سے پہلے بخل کی تعریف بیان کی جائے گی۔

بخل کی تعریف:حضرت سیدنا امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک قوم نے بخل کی تعریف، واجب کی عدم ادائیگی سے کی ہے، لہذا ان کے نزدیک جو شخص خود پر واجب حقوق ادا کرے، وہ بخیل نہ کہلائے گا۔

دیگر علمائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:کہ بخیل وہ شخص ہے، جس پر ہر قسم کا عطیہ دینا گراں گزرتا ہے، مگر یہ بات قاصر ہے، کیونکہ اگر بخل سے ہر عطیہ کا گراں گزرنا مراد لے لیا جائے تو اس پر یہ اعتراض ہوگا کہ بہت بخیلوں پر رَتی بھر یا اس سے زیادہ عطیہ دینا گراں نہیں گزرتا تو یہ بات بخل میں رخنہ نہیں ڈالتی، اب بخل کے بارے میں قرآن کریم سے روشنی ڈالی جاتی ہے کہ:

القرآن:

قال اللہ تعالی: وَ لَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا۲۹ترجمہ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے، ملامت کیا ہوا تھکا ہوا۔

الاحادیث:

1۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:کسی مؤمن بندے کے دل میں لالچ اور ایمان کبھی نہیں جمع ہو سکتے۔(الکامل فی ضعفا الرجل، عبدالغفور بن عبدالعزیز ابو الصباح الواسطی۔ ج2،ص21،ح1481)

2۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:اللہ نے ملامت کو پیدا فرمایا تو اسے بخل اور مال سے ڈھانپ دیا۔(المرجع السابق، ج3، ص183، ح7407)

3۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:بخل کے پندرہ حصے ہیں، ان میں سے نو حصے فارس (یعنی ایر ان) میں، جبکہ ایک حصہ دیگر لوگوں میں سے ہے۔(جامع الاحادیث للسیوطی، حرف الباء، ج4، س52، ح10119)

بخل سے نجات پانے کے بارے میں احادیث مبارکہ، الاحادیث:

4۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:جس نے زکوۃ ادا کی اور مہمان کی ضیافت کی اور ناگہانی آفت میں عطیہ دیا، وہ بخل سے آزاد ہے۔

5۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:لالچ سے بچتے رہو، کیونکہ بخل نے جب ایک قوم کو اکسایا تو انہوں نے اپنی زکوۃ روک لی اور جب مزید اکسایا تو انہوں نے رشتہ داریاں توڑ ڈالیں اور جب مزید اکسایا تو وہ خون ریزی کرنے لگے۔

خلاصہ کلام: اس پورے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زیادہ کنجوسی اور لالچ سے بچنا چاہئے، بخل انسان کو ناکارہ وکمزور بنا دیتا ہے، ایسا انسان لالچی اور لاچار ہوجاتا ہے، اس کو اپنے اچھے برے کی تمیز نہیں رہتی، حدیث پاک میں بھی اس کے بارے میں مذمت ذکر کی گئی ہے، قرآن پاک میں بھی اس کے بارے میں ذکر بیان کیا گیا ہے۔

دعائے خیر:یااللہ عزوجل میری اس کاوش کو قبول فرما اور اسے میرے لئے، میرے والدین اور اساتذہ کرام کے لئے صدقہ جاریہ بنا۔آمین