بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت ارشد،فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ
کسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشبہ برا ہے لیکن کسی پر
برائیوں اور گناہوں کا جھوٹا الزام لگانا اس سے بھی کہیں زیادہ برا ہے،ہمارے
معاشرے میں جو برائیاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک بہتان و تہمت یعنی
جھوٹا الزام لگانا بھی ہے،چوری،رشوت،جادو ٹونے،بدکاری اور خیانت جیسے جھوٹے
الزامات نے ہماری زندگیوں کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
بہتان کی تعریف:کسی شخص
کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے،آسان لفظوں
میں یوں سمجھیے کہ وہ برائی جو اس شخص میں نہ ہو اوراس کی طرف منسوب کر دی۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔جو مسلمان کسی کی برائی بیان کرے جو اس میں نہ ہو تو اس کو اللہ پاک اس وقت
تک ردغۃ الخبال (یعنی جہنم کی وہ جگہ جہاں جہنمیوں کا خون اورپیپ جمع ہوگا) میں رکھے گا جب تک
اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہو۔(ابو داود،جلد 3)
2۔پیارے آقا ﷺ نے فرمایا:میں نے معراج کی رات کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکا
ہوا دیکھا تو میں نے جبرائیل سے ان کے بارے میں پوچھا،تو انہوں نے بتایا کہ یہ
لوگوں پر بلاوجہ الزام لگانے والے ہیں۔(شرح الصدور،ص 184)
3۔حضرت علی سے روایت ہے کہ بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ
بوجھل ہے یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔(کنز العمال)
4۔مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ لعن طعن کرنے والا ہو۔(مشکاۃ المصابیح)
مثالیں: کسی کو ریاکار
کہہ دیا حالانکہ وہ ریا کار نہیں ہے،کسی کو چور کہہ دینا حالانکہ اس نے چوری نہیں
کی تو اس کو چور کہنا بہتان ہوا،اسی طرح غلط بیانی کرنا یاکسی کی اولاد کو دوسرے
کی طرف منسوب کر دینا وغیرہ۔
معاشرتی نقصان:تہمت،بہتان،الزام
تراشی اور بدگمانی ہمارے معاشرتی سکون کے لیے زہر قاتل ہے یہ رویے جاری خوشیوں کو
برباد کر دیتے ہیں اور ہر گھر ہر فرد ان سے متاثر ہوتا ہے اگر تہمت اور بہتان کا
رواج عام ہو جائے تو لوگوں کا ایک دوسرے پر سے اعتماد اٹھ جائے گا اور پھر ہر شخص
کے اندر یہ جرأت پیدا ہو جائے گی کہ وہ جس کے خلاف جو چاہے زبان پر لائے گا اور اس
پر جھوٹ،بہتان اور الزام لگادے گا جس سے معاشرتی نظام تباہ و برباد ہو جائے
گا،قرآن کریم نے سورۃ النساء،نور،احزاب اور حجرات میں اس بارے میں تفصیلی احکام
دیئے ہیں جن پر عمل کر کے ہم خوشنودی باری تعالیٰ حاصل کر سکتے ہیں وہاں تعلقات
میں آنے والی دوریوں کو بھی ختم کر سکتے ہیں،ان پر عمل کی صورت میں ہمارا معاشرہ
امن اور دوستی کا گہوارہ بن سکتا ہے،ہمیں انفرادی،معاشرتی اور قومی سطح پر ان
ہدایات کو ملحوظ نظر رکھنا چاہیے۔
بچنے کا درس:جہاں تہمت کا رواج بہت زیادہ ہوگا وہاں دوستی کی جگہ
کینہ اور عداوت لے لے گی اور عوام میں میل و محبت کم ہو جائے گی،لہٰذا ہمیں اس عمل
سے بازآنا چاہیے اور جس پر تہمت یا بہتان لگایا اس سے معافی مانگنی چاہیے تاکہ
آخرت میں گرفت نہ ہو اللہ پاک اس لعنت سے ہماری حفاظت فرمائے،آمین۔بہتان جیسے
گناہ سے بچنے کے لیے قرآن و حدیث میں ذکر کیے گئے عذابات کا مطالعہ کریں کہ اگر
وہ عذابات ہم پر مسلط کر دیے گئے تو ہمارا کیا بنے گا؟اسی طرح سلام اور مصافحہ کی
عادت اپنائیے اور مسلمانوں کے بارے میں حسن ظن رکھیں بدگمانی اور شک کرنے سے پرہیز
کریں،اس کے علاوہ بچوں کی تعلیمی نصاب میں بھی اس برائی کے متعلق آگاہی فراہم کی
جانی چاہیے اور مساجد میں خطبات اور درس و بیان کے ذریعے اس برائی سے بچنے کی
ترغیب دی جانی چاہیے تاکہ یہ گناہ جو ہمارے معاشرے میں وبا کی طرح سرایت کر رہا ہے
اس کا تدارک ہو سکے اور اگر آج تک کسی کے بارے میں تہمت یا بہتان جیسا گناہ ہو
گیا تو اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے توبہ کر لیجیے۔بہارِ شریعت حصہ 16 پر
ہے:بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان
باندھا ہے ان کے سامنے جا کر کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا،نفس کے لیے
یقینا سخت دشوار ہے مگر دنیا کی تھوڑی سی ذلت اٹھانی آسان مگر آخرت کا معاملہ
بہت سنگین ہے،خدا کی قسم دوزخ کاعذاب برداشت نہیں ہو سکے گا۔
کرلے توبہ رب کی
رحمت ہے بڑی
قبر میں ورنہ سزا
ہوگی کڑی