بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ
مصطفیٰ از بنت جاوید،جامعۃ المدینہ معراجکے سیالکوٹ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اگر کسی انسان نے دوسرے انسان کے متعلق وہ بات کہی جو
اس کے اندر نہیں تو پھر تو نے اس پر بہتان لگایا۔(مشکوٰۃ شریف)
احادیث مبارکہ:
1۔پاک دامن عورت پر الزام لگانا سو برس کی عبادت کو ضائع کر دیتا ہے۔(مجمع
الزوائد،6/279)
2۔کسی بے قصور پر بہتان لگانا یہ آسمانوں سے بھی زیادہ بھاری گناہ ہے۔(کنز
العمال:حدیث: 8806)
3۔جو شخص کسی مسلمان کی عزت و آبرو کو منافق کے شر سے بچائے تو اللہ قیامت کے
دن ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا جو اس کے جسم کو دوزخ کی آگ سے بچائے گا۔اور جو شخص
کسی مسلمان کو بدنام کرنے کے لئے اس پر کوئی جھوٹا الزام لگائے تو اللہ تعالیٰ اس
کو جہنم کے پل پر اس وقت تک روکے رکھے گا جب تک وہ الزام تراشی کے گناہ کی سزا نہ
پائے۔(سنن ابی داود،حدیث:4885)
آیت مبارکہ:وَ الَّذِیْنَ
یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ
احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) ( الاحزاب:58) ترجمہ:اور جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ایسے کام پر
جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر
پر رکھا۔
معاشرتی نقصانات:بہتان معاشرے کی سلامتی کو جلد یا
بدیر نقصا ن پہنچاتا ہے سماجی انصاف کو ختم کر دیتا ہے۔ حق کو باطل اور باطل کو حق
بنا کر پیش کرتا ہے۔بہتان انسان کو بغیر کسی جرم کے مجرم بنا کر اس کی عزت و آبرو
کو خاک میں ملا دیتا ہے اگر معاشرے میں بہتان کا رواج عام ہو جائے اور عوام بہتان
کو قبول کر کے اس پر یقین کر لیں تو حق باطل کے لباس میں اور باطل حق کے لباس میں
نظر آئے گا۔
وہ معاشرہ جس میں بہتان کا رواج عام ہو جائے گا تو اس میں حسن ظن کو سوء ظن کی
نگاہ سے دیکھا جائے گا تو لوگوں کا ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ جائے گا،ہر شخص کے
اندر یہ جرأت پیدا ہو جائے گی کہ وہ جس کے خلاف جو بھی چاہے گا زبان پر لائے گا
اور اس پر بہتان اور الزام لگا دے گا۔
الغرض مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد
الزامات لگانے پر بڑی وعید آئی ہے، اس لیے اس سے باز آنا چاہیے اور جس پر بہتان
لگائی ہے اسے معلوم ہونے کی صورت میں اس سے معافی مانگنی چاہیے تاکہ قیامت کے دن
ہمیں شرمندگی محسوس نہ ہواور گرفت نہ ہو۔
درس:کسی پر بہتان لگانا اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ اور
ملائکہ مقربین کی ناراضگی کا باعث ہے۔بہتان تراشی سے ایک اچھا خاصہ بہترین معاشرہ
فساد اورلڑائی میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے،لوگوں پر بہتان لگانے والا سماج و
معاشرے میں نا پسندیدہ اور بے وقعت سمجھا جاتا ہے،بہتان ایک مسلمان کی شان سے بہت
بعید ہے،یہ تو منافقین کا شیوہ و عادت ہے نیز شریعت میں دعویٰ اور حق کو ثابت کرنے
کے لیے یہ ضابطہ ہے کہ مدعی کےذمہ اپنے دعویٰ کو گواہی کے ذریعہ ثابت کرنا بھی ضروری
ہے جیسا کہ ہم نے دیکھا اور پڑھا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ اور فرشتے بہتان تراشی
کو کتنا ہی ناپسندیدہ سمجھتے ہیں ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد یہی ہے کہ ہم
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو راضی کریں اگر وہی ہم سے ناراض ہوں گے تو ہم کہاں جائیں
گے؟اس لیے ہمیں چاہیے کہ جن کاموں کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ان کاموں پر
دل و جان سے ایمان لائیں اور پیروی کریں۔اللہ پاک ہم سب کو بہتان جیسی بیماری سے
محفوظ فرمائے آمین۔