کسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشبہ برا ہے لیکن کسی پر گناہوں اور برائیوں کا جھوٹا الزام لگانا اس سے کہیں زیادہ برا ہے،ہمارے معاشرے میں جو برائیاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک تہمت یعنی جھوٹا الزام لگانا ہے۔

فتاویٰ رضویہ ج 24 ص 386 میں اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان لکھتے ہیں:کسی مسلمان کو تہمت لگانی حرام قطعی ہے خصوصا معاذ اللہ اگر تہمت زنا ہو۔

بہتان کی تعریف:کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھیے کہ برائی نہ ہونے کے باوجود اگر پیٹھ پیچھے یا روبرو وہ برائی اس کی طرف منسوب کردے تو یہ بہتان ہوا۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص294)

احادیث مبارکہ:

1۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(ابو داود،3 / 427، حدیث: 3597)

2۔لوگوں پر گناہوں کی تہمت لگانے والوں کے عذاب کی ایک دل ہلا دینے والی روایت یہ ہے کہ آقا ﷺنے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا،میں نے جبرائیل سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بلاوجہ الزامِ گناہ لگانے والے ہیں۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص295)

3۔فرمایا:کیا تم جانتے ہو غیبت کسے کہتے ہیں؟ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا:تم اپنے بھائی کا ایسے انداز میں تذکرہ کرو جو اسے پسند نہیں ہے تو آقا ﷺ سے عرض کیا گیا اگر جو بات میں کہہ رہا ہوں وہ میرے بھائی میں موجود ہو تب بھی غیبت ہوگی؟تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر آپ کی کہی ہوئی بات اس میں موجود ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ چیز موجود ہی نہیں تو یہ تم نے بہتان بازی کی ہے۔(مسلم شریف،ص 2589)

4۔آقا ﷺ نے فرمایا پانچ اعمال ایسے ہیں جن کا توبہ کے علاوہ کفارہ نہیں؛1)اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ 2)ناحق کسی کو قتل کرنا۔ 3)کسی مومن پر بہتان لگانا۔ 4)دوران جہاد پیٹھ پھیر کر فرار ہونا۔ 5)جھوٹی قسم سے کسی کا مال ہڑپ کرنا۔(الترغیب و الترہیب)

5۔آقا ﷺ نے سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچنے کا حکم فرمایا جن میں ایک پاکدامن عورت پر تہمت لگانا بھی ہے۔(سنن ابی داود،ص 397)

بہتان سے بچنے کا درس:تہمت کے موقع سے بچنا چاہیے،ہمارے معاشرے میں الزام تراشی بہتان بازی اور افترا پردازی کا خوب چلن ہے،کیا خاص کیا عام سب ہی اس مہلک مرض میں مبتلا ہیں،اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے تہمت بہتان سے توبہ کر لینی چاہیے۔

بہارِ شریعت حصہ 16 ص 538 پر ہے:بہتان کی صورت میں توبہ کرنا معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔

نفس کے لیے یقینا یہ سخت گراں ہے مگر دنیا کی تھوڑی سے ذلت اٹھانی آسان جبکہ آخرت کا معاملہ انتہائی سنگین ہے۔

بہتان کے معاشرتی نقصانات:دشمنی حسد راستے سے ہٹانے بدلہ لینے سستی شہرت حاصل کرنے کی کیفیات میں گم ہوکر تہمت و بہتان تراشی کرنے والے تو الزام لگانے کے بعد اپنی راہ لیتے ہیں لیکن جس پر جھوٹا الزام لگا وہ بقیہ زندگی رسوائی اور بدنامی کا سامنا کرتا رہتا ہے اور بعض اوقات یہ جھوٹا الزام غلط فہمی کی بنا پر بھی لگا دیا جاتا ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں تہمت بہتان جیسی بیماری سے بچائے اور ہمیں سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔آمین