بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت منور، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ بہتان بھی ہے اور بہتان تراشی غیبت سے
زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے،کیونکہ یہ جھوٹ ہے اس لیے یہ ہر ایک پر گراں گزرتی ہے۔اللہ
پاک نے سورۃ الاحزاب میں بے گناہ مومنین اور بے گناہ مومنات کو زبانی ایذا دینے
والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیا ہے۔
بہتان کی تعریف:کسی شخص
کے پوشیدہ عیب کو جس کا وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو اس کی برائی
کرنے کے طور پر ذکر کرنا غیبت ہے اور اگر اس میں وہ بات ہی نہ ہو تو غیبت نہیں
بلکہ بہتان ہے۔
بہتان کی مذمت پر احادیث مبارکہ:
1۔جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے
جہنم کے پل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ)سے (اس شخص کو
راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پا کر) نہ نکل جائے۔(ابو داود،کتاب الادب،
حدیث: 4883)
2۔جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے
ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس
کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب
میں مبتلا رہے گا۔(معجم الاوسط،باب المیم، حدیث: 8931)
3۔بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے۔(یعنی بہت بڑا
گناہ ہے) (مسند احمد، 7/204)
4۔جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی (الزام لگایا،تہمت یا جھوٹی بات منسوب
کی) جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں تو اللہ اس (الزام لگانے والے،تہمت لگانے
والے،جھوٹی بات منسوب کرنے والے) کو دوزخ کی پیپ میں ڈالے گایہاں تک کہ وہ اپنی اس
حرکت سے باز آجائے۔(مشکاۃ المصابیح، حدیث: 3542)
5۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت ردغۃ الخبال (یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہوگا) میں رکھے گا جب
تک اس گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔(ابو داود،3/ 427،حدیث:3597)
بہتان کی چند مثالیں:جیسے دشمنی،حسد،راستے سے ہٹانے،بدلہ لینے کے لیے کسی پر چوری،رشوت،جادو
ٹونے،بدکاری،خیانت،قتل جیسے جھوٹے الزامات لگادیئے جاتے ہیں۔
چند معاشرتی نقصانات:بہتان لگانے والا تو بہتان لگا کر اپنی راہ لے لیتا ہے لیکن اس کی وجہ سے
گھروں، خاندانوں کا سکون برباد ہو کر رہ جاتا ہے،آپس میں لڑائی جھگڑے ہونا شروع
ہو جاتے ہیں،بسا اوقات تو اس بہتان جیسی آفت کی وجہ سے گھروں کے گھر تباہ و برباد
ہو جاتے ہیں اور جس پر بہتان لگا ہوتا ہے وہ بقیہ زندگی رسوائی اور بدنامی کا
سامنا کرتا رہتا ہے۔
تہمت کاشرعی حکم:اعلیٰ
حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:کسی مسلمان کو تہمت
لگانی حرام قطعی ہے خصوصا معاذ اللہ اگر تہمتِ زنا ہو۔(فتاویٰ رضویہ، 24/396)
توبہ کر لیجیے!اس سے پہلے کہ
دنیا سے رخصت ہونا پڑے تہمت و بہتان سے توبہ کر لیجیے۔بہارِ شریعت حصہ 16 ص 538 پر
ہے:بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور جس پر بہتان لگایا ہے اسے معلوم ہونے کی صورت
میں معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ
کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔نفس کے
لیے یقینا یہ سخت گراں ہے مگر دنیا کی تھوڑی سے ذلت اٹھانی آسان جبکہ آخرت کا
معاملہ انتہائی سنگین ہے۔خدا کی قسم!دوزخ کا عذاب برداشت نہیں ہو سکے گا۔
کر لے توبہ رب کی
رحمت ہے بڑی
قبر میں ورنہ سزا
ہوگی کڑی
بہتان سے بچنے کے طریقے:بہتان سے بچنے کے لیے سب سے پہلے بہتان کی مذمت پر جو آیات کریمہ اور احادیث
نبوی ہیں ان کا مطالعہ کیا جائے اور مدنی چینل کوپابندی سے دیکھا جائے ان شاء اللہ
الکریم اس کی برکت سے باطنی امراض سے بچنے کا ذہن بنے گا اور علم دین کا ذخیرہ
حاصل ہوگا۔اللہ کریم ہمیں تمام ظاہری و باطنی امراض سے محفوظ فرمائے۔آمین یارب
العالمین