ہمارے پیارے دین اسلام نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنے کا حکم دیا اور بد گمانی کرنے سے منع کیا،کیونکہ بدگمانی بہتان تراشی سب شیطان کے وار ہیں،آئیے بہتان سے بچنے کے لیے 5 فرامین مصطفیٰ سنتے ہیں؛

تعریف:کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان ہے۔

1۔مسلمان کا خون مال اور اس سے بدگمانی دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔(شعب الایمان،5/297، حدیث:6756)

امام محمد غزالی لکھتے ہیں:مسلمان سے بدگمانی اس طرح حرام ہے جس طرح زبان سے برائی کرنا حرام ہے۔

2۔حسن ظن عبادت ہے۔(سنن ابو داود،4/388،حدیث:4993)

مفتی احمد یار خان لکھتے ہیں:مسلمان سے اچھا گمان کرنا اس پر بد گمانی نہ کرنا اچھی عبادت سے ہے۔(مراٰۃ المناجیح،6/621)

3۔غیبت کرنے والوں،چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک قیامت کے دن کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔(الترغیب و الترہیب،3/325،حدیث:10)

مفتی احمد یار خان لکھتے ہیں: تمام انسانوں کو قبروں سے انسانی شکل میں اٹھایا جائے گا پھر محشر میں پہنچ کر بعض کی صورتیں مسخ کر دی جائیں گی۔(مراٰۃ المناجیح،6/660)

4۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اسے اللہ پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل جائے۔(ابو داود،3 / 427، حدیث: 3597)

5۔نبی پاک ﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے ایک منظر کے بارے میں فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا،میں نے جبرائیل سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر جھوٹی تہمت لگاتا تھا۔(شرح الصدور،ص 182)

مثال:کسی کو سامنے یا پیچھے ریا کار کہنا زانی کہنا لیکن یہ گناہ اس شخص میں موجود نہ ہو۔

نقصان:بہتان سے معاشرے میں لڑائی جھگڑا اور شرعی سزا ہوتی ہے۔