بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت خالد،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
نبی رحمت ﷺ نے فرمایا:جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی
جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال (یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع
ہوگا) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔(ابو
داود،3/427،حدیث:3597)
بہتان کی تعریف:کسی شخص
کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔
بہتان کی مذمت پر 5 فرامین مصطفیٰ:
1۔حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا:تم میں حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کی مثال ہے جن سے یہود نے بغض رکھا حتی کہ ان کی ماں کو تہمت لگائی اور ان
سے عیسائیوں نے محبت کی حتیٰ کہ انہیں اس درجہ میں پہنچا دیا جو ان کا نہ تھا پھر
فرمایا میرے بارے میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے؛محبت میں افراط کرنے والے،مجھے ان
صفات سے بڑھائیں گے جو مجھ میں نہیں ہیں اور بغض کرنے والے،جن کا بغض اس پر ابھا
رے گا کہ مجھے بہتان لگائیں گے۔(احمد)
2۔قبیلہ بکر بن لیث کا ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے ایک
عورت سے زنا کا اقرار چار بار کر لیا،چنانچہ اس کو سو کوڑے لگادیئے گئے،وہ کنوارا
تھا پھر اس سے عورت پر گواہ مانگے،عورت بولی یارسول اللہ!اللہ کی قسم اس نے جھوٹ
بولا تو اسے بہتان کی حد لگائی۔(ابو دود)
3۔سات ہلاکت کی چیزوں سے بچو۔لوگوں نے پوچھا حضور وہ
کیا ہیں؟فرمایا:اللہ کے ساتھ شرک،جادو،ناحق اس جان کو ہلاک کرنا جو اللہ نے حرام
کی،سود خوری،یتیم کا مال کھانا،جہاد کے دن پیٹھ دکھا دینا،پاکدامن مؤمنہ بے خبر
بیبیوں کو بہتان لگانا۔ (بخاری،مسلم)
4۔صحابۂ کرام سے فرمایا:مجھ سے اس پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک
نہ کرنا،نہ چوری کرنا،نہ زنا،نہ اپنی اولاد قتل کرنا،نہ اپنے سامنے گھڑا ہوا بہتان
لگانا اور کسی اچھی بات میں نا فرمانی نہ کرنا،تم میں سے جو وفائے عہد کرے گا اس
کا ثواب اللہ کے ذمہ کرم پر ہے اور جو ان میں سے کچھ کر بیٹھے اور دنیا میں سزا
پالے تو وہ سزا کفارہ ہے اور جو ان میں سے کچھ کرے پھر رب اس کی پردہ پوشی کرے تو
وہ اللہ کے سپرد ہے اگر چاہے معافی دے دے چاہے سزا دے،لہٰذا صحابہ نے اس پر آپ سے
بیعت کی۔(مسلم،بخاری)
5۔کسی پر بہتان لگانا شرعا انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے،حضرت علی سے روایت
ہے:بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے یعنی بہت بڑا گناہ
ہے۔
جو شخص کسی مسلمان پر ایسی بات لگائے جو اس میں نہ ہو اللہ پاک اس کو دوزخیوں
کے لہو اور پیپ کے جمع ہونے کی جگہ رہنے کو دے گا یہاں تک کہ اپنے کہے سے باز آئے
اور توبہ کر لے۔ (بخاری، حدیث: 3461)
بہار شریعت حصہ 16 ص 538 پر ہے:بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور جس پر بہتان
لگایا ہے اسے معلوم ہونے کی صورت میں معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے
بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں
پر میں نے بہتان باندھا تھا،نفس کے لیے یقینا یہ سخت گراں ہے مگر دنیا کی تھوڑی سے
ذلت اٹھانی آسان جبکہ آخرت کا معاملہ انتہائی سنگین ہے،خدا کی قسم دوزخ کا عذاب
برداشت نہیں ہو سکے گا۔
کر لے توبہ رب کی
رحمت ہے بڑی
بہتان کے چند نقصانات:سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے جھوٹ بولنے اور افواہ کا
بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہاں اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ
چاہے جان کر ہو یا انجانے میں ہو کتنے لوگوں کو ایک آدمی سے بدظن کر دیتا ہے،کبھی
تو بڑے بڑے فساد کا ذریعہ بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کر
کے رکھ دیتا ہے جب جھوٹ بولنے والے کی حیثیت لوگوں کے سامنے آتی ہے تو وہ بھی
لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے،اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس
کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔